ہجر کی رت میں تڑپتی و سسکتی آنکھیں

ہجر کی رت میں تڑپتی و سسکتی آنکھیں
مجھ سے دیکھی نہیں جاتیں یہ تمہاری آنکھیں


وقت کالج میں کتابوں کے احاطے میں گھری
ہائے کس طرح میں بھولوں وہ کتابی آنکھیں


چہرہ ایسا کہ جو دیکھے کہے سبحان اللہ
ذکر کرتے ہوئے لب ہیں تو نمازی آنکھیں


اے مصور کوئی تصویر بنا مجھ جیسی
چہرہ ہو غم کا بدل شور مچاتی آنکھیں


مجھ کو پلکوں پہ بٹھا کر کے زمیں بوس کیا
یا خدا خاک وہ ہو جائیں فریبی آنکھیں


بعد تیرے جو مجھے دیکھے کہے یہ زویاؔ
کس کے ماتم میں ہیں یہ تیری غلافی آنکھیں