حیات الفت کی چاندنی میں مسرتوں کی کمی نہیں ہے

حیات الفت کی چاندنی میں مسرتوں کی کمی نہیں ہے
مگر مقدر کو کیا کروں میں نظر وہ پہلی جو تھی نہیں ہے


وہ ابتدا عشق کی تھی ہم کو گلہ تھا جب درد بے کسی کا
مگر شباب جنوں تو دیکھو شکایت بے رخی نہیں ہے


تری محبت ہے زہر شیریں تری وفائیں حسین دھوکے
ہے لاکھ دشمن اگرچہ دنیا مگر یہ تجھ سے بری نہیں ہے


ہزاروں طوفاں سے عشق کھیلے ہزار دل میں ہجوم غم ہو
مگر فریب وفا جو کھائے وہ زندگی زندگی نہیں ہے


کمال عشق و وفا کے پرتو جہاں تہاں جگمگا رہے ہیں
یہ سب فریب نگاہ و دل ہے کسی میں کچھ دل کشی نہیں ہے


وہ اور ہوں گے عیش دنیا کی آرزوؤں میں مر رہے ہیں
وہ چیز میں کیوں پسند کر لوں جو حاصل بندگی نہیں ہے


تری وفاؤں کے آسرے پر حد تصور سے بڑھ گیا ہوں
مقام ایسا اب آ گیا ہے تری کمی بھی کمی نہیں


جوان ہے اب مری محبت شباب پر ہیں مری دعائیں
ہے موقعۂ خودکشی تو اے راجؔ ہمت خودکشی نہیں ہے