ہوا سے اجڑ کر بکھر کیوں گئے
ہوا سے اجڑ کر بکھر کیوں گئے
وہ پتے جو سرسبز شاخوں پہ تھے
ہری گھاس کس کے لہو سے جلی
وہ تتلی کے رنگین پر کیا ہوئے
نہیں کوئی چڑیا کسی ڈال پر
درختوں پہ مکڑی نے جالے بنے
دریچوں کے شیشوں کا دل توڑ کر
مکاں خالی روحوں کے مسکن بنے
ہے خبروں کے چہروں پہ وحشت بہت
میں دیکھوں جو ان کو مرا جی ڈرے
جو آنکھوں کی فکریؔ ہنسی چھین لیں
وہ کس تیرہ جنگل کے ہیں بھیڑیے