حسرت سے دیکھتا ہوں تری رہ گزر کو میں
حسرت سے دیکھتا ہوں تری رہ گزر کو میں
سمجھاؤں کس طرح یہ دل بے خبر کو میں
کیا دوں جواب ان کے اشاروں کا ہم نشیں
سمجھا نہیں ہوں آج تک اس فتنہ گر کو میں
رہبر ہی ساتھ ہے نہ ہے منزل کا ہی نشاں
راہوں سے بے خبر ہوں چلا ہوں سفر کو میں
دیکھا کرو نہ پیار سے میری طرف حضور
بس میں نہ رکھ سکوں گا پھر اپنی نظر کو میں
اس بے بسی میں شوق کی پرواز دیکھیے
لے ہی اڑا ہوں طائر بے بال و پر کو میں
جائے گا جی کے ساتھ ہی یہ روگ اے کنولؔ
لیکن یہ بات کیسے کہوں چارہ گر کو میں