کیا ہو گیا ہے تجھ کو مرے دل سنبھل سنبھل
کیا ہو گیا ہے تجھ کو مرے دل سنبھل سنبھل
ایسے تو پاؤں رکھتے ہیں غافل سنبھل سنبھل
لایا ہے کھینچ تم کو جہاں ذوق مے کشی
لگتی نہیں یہ درد کی محفل سنبھل سنبھل
اک عمر پا کے ختم نہ ہو جائے تیرا پیار
ہونے لگی ہے آرزو شامل سنبھل سنبھل
ڈوبے گی راہ شوق میں لے کر تجھے بھی ساتھ
منزل ہے تیری راہ میں حائل سنبھل سنبھل
جس ناخدا کو تو نے بنایا تھا ہم سفر
تھاما ہے اس نے دامن ساحل سنبھل سنبھل
توڑے ہیں جس کو پانے کی خاطر ہزار دل
منزل نہیں ہے دھوکا ہے غافل سنبھل سنبھل
قربان گاہ گلشن ہستی میں اے کنولؔ
بیٹھے ہیں پھول پھول میں قاتل سنبھل سنبھل