اٹھ جائے درمیاں سے جو پردہ حجاب کا

اٹھ جائے درمیاں سے جو پردہ حجاب کا
پڑھ لوں کتاب حسن سے مضمون خواب کا


اپنی نظر بھی ڈال دے ساقی شراب میں
دیکھے کوئی تو اس کو ہو دھوکا گلاب کا


ظاہر پہ کر نقاب تو باطن پہ کر نظر
مطلوب ہے نظارا جو اس بے نقاب کا


اس پر تمام کھل گئے ارض و سما کے راز
ہم راز ہو گیا جو تمہاری جناب کا


حسن و جمال عشق سے تھرا گئی فضا
جیسے گیا ہو چونک وجود آفتاب کا


ضو پائے جس سے عشق وہ جلوے بکھیر دے
فطرت میں رنگ بھرنا ہے مقصد شباب کا


اللہ رے تمتماتے سے چہرے کی آب و تاب
پھیکا پڑے ہے دیکھ کے رنگ آفتاب کا


عارض کے زیر و بم پہ نظر جم کے رہ گئی
میری نظر میں خاک تھا شعلہ عتاب کا


خادم کے عرض حال پہ کرتا ہے سو سوال
لڑنا ہے لا جواب سے اک لا جواب کا


رندوں میں ایک رند کنولؔ بھی ہے دوستو
عاشق ہے ایسے دور میں حسن شراب کا