ہر شے گنگنانے لگی
چاہا اے زندگی میں نے تجھے
اپنے کاموں سے فرصت ملی نہ مجھ کو
پڑھنے کو کچھ لکھنے کو جی تڑپتا رہا
فکر ایام گھر والوں کا خیال
بچوں کے مسکراتے چہرے
قلم ہاتھ سے میرے چھوٹتا رہا
دل ناتواں کو بہلاتی رہی
پھر بھی گیت زندگی کے میں گاتی رہی
روشن سورج کی کرن آخر در آئی
امیدوں کے چراغ جل اٹھے
کھل اٹھا میرا گلشن
چہچہانے لگے پرندے
کلیوں پہ آ گیا تبسم
چھا گئی گھٹا رنگ و نور کی
یاسمینؔ گیت خوشی کے پھر گانے لگی
ہر شے گنگنانے لگی