آرزو ہے نہ کوئی حسرت ہے
آرزو ہے نہ کوئی حسرت ہے
یاد ہی اس کی اب غنیمت ہے
غم کی دولت ہی میری دولت ہے
اس میں بھی مجھ کو عین راحت ہے
دیکھیے کون کامراں نکلے
میں ہوں یا اب میری مصیبت ہے
کیوں پشیماں ہو دل گناہوں پر
اس کی بخشش ہے اس کی رحمت ہے
اس سے کیا ہو مجھے امید وفا
بے وفائی ہی جس کی عادت ہے
غم میں مسرور درد میں شاداں
دل کی فطرت عجیب فطرت ہے
ہر زباں پر ہے اب ہمارا نام
اے محبت تری عنایت ہے
ہو چکی انتہا جفاؤں کی
اب ترے لطف کی ضرورت ہے
گلستانوں کا ہے مقام اپنا
خارزاروں کی اپنی عظمت ہے
غم نہ ہو تو ہے زندگی بے کیف
غم ہی سے زندگی عبارت ہے
دن بہاروں کے بھی نہ راس آئے
میرے خالق یہ میری قسمت ہے
شورشیں ختم ہیں شباب کے ساتھ
اب وہ دل ہے نہ وہ طبیعت ہے
موت سے لوگ کیوں ہراساں ہیں
زندگی بھی تو اک مصیبت ہے
کوئی بیگانہ ہو کہ اپنا ہو
ہر کسی سے ہمیں محبت ہے
غم سے بیزار کس لیے ہو کنولؔ
غم ہی سے آدمی کی عزت ہے