ہر ایک جانب ہے رقص کرتی عجیب سی چپ
ہر ایک جانب ہے رقص کرتی عجیب سی چپ
یہ دل کے آنگن میں نوحہ لکھتی عجیب سی چپ
رہ وفا میں جہاں پہ بھٹکا تھا اک مسافر
وہیں کہیں پہ ہے ہاتھ ملتی عجیب سی چپ
ہے کچھ صداؤں کا پیچھا کرتی مری سماعت
اور اک خموشی سے مجھ کو تکتی عجیب سی چپ
وہ میری پلکوں کے سائے سائے وفا کی بیلیں
اور ان سے خوابوں کے پھول چنتی عجیب سی چپ
افق پہ یادوں کے زرد آنچل میں لپٹا سورج
اور اس پہ شاموں کے ساتھ ڈھلتی عجیب سی چپ
وہ پچھلے موسم کا ہاتھ تھامے حسین منظر
وہ اگلے موسم میں اس سے لڑتی عجیب سی چپ
وہ خوش گمانی کی کونپلوں پر کھلی تمنا
اور اس کے حق میں دعائیں کرتی عجیب سی چپ
وہ سرد راتوں میں آنسوؤں کے چراغ روشن
اور ان چراغوں کی لو میں جلتی عجیب سی چپ
وہ خواہشوں کے بدن سے اٹھتی سنہری خوشبو
وہ دل کے موسم میں چھپ کے روتی عجیب سی چپ