ہر آن رہ شوق میں چلنے کی لگن ہے
ہر آن رہ شوق میں چلنے کی لگن ہے
ہر گام وہی سلسلۂ دار و رسن ہے
آہستہ گزر باد صبا اس کی گلی سے
سنتے ہیں کہ اس شوخ کا پھولوں سا بدن ہے
اس باغ کے خاروں سے بھرا ہے مرا دامن
جس باغ کے پھولوں میں بھی خاروں سی چبھن ہے
اللہ رے ہر سانس کی گھٹتی ہوئی قیمت
اس دور کے انسان کا جی لینا بھی فن ہے
پلکوں پہ ہیں ٹوٹے ہوئے خوابوں کے جنازے
اور روح پہ احساس کے زخموں کی جلن ہے
گھبرا کے تمہیں چیخ پڑو سرد چٹانو
اس درد کے صحرا میں تو صدیوں کی گھٹن ہے
زنداں میں اسیروں کا عجب حال ہے شاعرؔ
بس ورد زباں صحن چمن صحن چمن ہے