حقیقتوں کو فسانہ بنا کے بھول گیا

حقیقتوں کو فسانہ بنا کے بھول گیا
میں تیرے عشق کی ہر چوٹ کھا کے بھول گیا


ذرا یہ دورئ احساس‌ حسن و عشق تو دیکھ
کہ میں تجھے ترے نزدیک آ کے بھول گیا


اب اس سے بڑھ کے بھی وارفتگئ دل کیا ہو
کہ تجھ کو زیست کا حاصل بنا کے بھول گیا


گمان جس پہ رہا منزلوں کا اک مدت
وہ رہ گزار بھی منزل میں آ کے بھول گیا


اب ایسی حیرت و وارفتگی کو کیا کہیے
دعا کو ہاتھ اٹھائے اٹھا کے بھول گیا


دل و جگر ہیں کہ گرمی سے پگھلے جاتے ہیں
کوئی چراغ تمنا جلا کے بھول گیا