حق مہر کتنا ہوگا بتایا نہیں گیا
حق مہر کتنا ہوگا بتایا نہیں گیا
شہزادیوں کو بام پر لایا نہیں گیا
کمزور سی حدیث سنا دی گئی کوئی
انصاف کا ترازو اٹھایا نہیں گیا
میں اپنے ساتھ ساتھ ہوں وہ اپنے ساتھ ساتھ
ہم زاد آپ ہم کو بنایا نہیں گیا
پیالے میں پیاس اور دریچے میں چاند تھا
وہ سو رہا تھا مجھ سے جگایا نہیں گیا
اک خواب دیکھنے میں ہی ہم صرف ہو گئے
انگار زندگی کا جلایا نہیں گیا
ہر بار چھوڑ آتی ہوں دریا میں لہر کو
چلو میں بھر کے مجھ سے اٹھایا نہیں گیا