ہمیں ملا نہ کبھی سوز زندگی سے فراغ

ہمیں ملا نہ کبھی سوز زندگی سے فراغ
اگر بجھا ہے کہیں دل تو جل اٹھا ہے دماغ


وہی حیات جو نیرنگ خار و گل ہے کبھی
کبھی کھلائے تمنا ہے جو نہ دشت نہ باغ


جہاں بھی کھوئے گئے قافلے ارادوں کے
وہیں سے مجھ کو ملا تیری انجمن کا سراغ


گزر رہی ہے عجب طرح زندگی عالیؔ
نہ بجھ رہا ہے چراغ اور نہ جل رہا ہے چراغ