ہمارے پاس کئی اور زاویے بھی ہیں

ہمارے پاس کئی اور زاویے بھی ہیں
ہم اپنی آنکھ سے دنیا کو دیکھتے بھی ہیں


چلو کہ فیصلہ کر لیں ہم آج آپس میں
یہاں پہ سنگ بھی موجود آئنے بھی ہیں


یہ لوگ سیر کو نکلے ہوئے ہیں ان سے ڈرو
کبھی کبھی تو یہ پھولوں کو روندتے بھی ہیں


ابھی سے خواب کشش بھر رہے ہیں آنکھوں میں
ابھی تو عشق میں ہم تم نئے نئے بھی ہیں


اندھیرا دیکھ کے گھبرا نہ جائیے حضرت
ہم اپنے گھر کو کسی دن چراغتے بھی ہیں


ہم اہل دل بھی ہیں اور اہل فن بھی ہیں جاویدؔ
سخن کشید بھی کرتے تراشتے بھی ہیں