ہم نے اس شخص کو مایوسی کا پیکر جانا
ہم نے اس شخص کو مایوسی کا پیکر جانا
جس نے حالات کی گردش کو مقدر جانا
میرے ہر شعر سے محظوظ ہوئی ہے دنیا
میرے ہر زخم کو دنیا نے گل تر جانا
تجربے کون سی منزل پہ مجھے لے آئے
میرے احساس نے ہر پھول کو پتھر جانا
اس سے پوچھو کہ غریب الوطنی کیا شے ہے
جس کو مشکل ہو وطن اپنے پلٹ کر جانا
اس لئے ہم نے چلایا نہ کسی پر پتھر
سر کسی کا بھی ہو اپنا ہی اسے سر جانا
فہم و ادراک کی جب ساری حدیں ٹوٹ گئیں
تشنگی نے مری صحرا کو سمندر جانا
صرف احساس ہی دکھ سکھ کا پتہ دیتا ہے
ہم نے پھولوں کو بھی انگاروں کا بستر جانا