ہم نے رستے میں کوئی شمع جلا دی ہوتی
ہم نے رستے میں کوئی شمع جلا دی ہوتی
دور سے ہی جو کبھی تم نے صدا دی ہوتی
میرے سب گیت تمہارے ہی لیے ہیں شاید
تم نے ان گیتوں میں آواز ملا دی ہوتی
تم نے تو کچھ بھی نہ کہنے کی قسم کھائی تھی
بات جو دل میں تھی ہم نے ہی بتا دی ہوتی
بھیگ جانی تھیں اس طرح تمہاری پلکیں
وہ کہانی جو تمہیں ہم نے سنا دی ہوتی
شاید انسان کا جینا ہی بہت مشکل تھا
راز کی بات جو قدرت نے بتا دی ہوتی
نازؔ بچپن میں کنارے سے وہ لگ ہی جاتی
ناؤ کاغذ کی جو پانی میں بہا دی ہوتی