ایسا نہیں کسی سے محبت نہیں ہمیں

ایسا نہیں کسی سے محبت نہیں ہمیں
پر کیا کریں کہ شوق وضاحت نہیں ہمیں


اس طرح کھو گئے ہیں غم زندگی میں ہم
پھولوں کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ہمیں


کتنے مکان ہم نے تو تعمیر کر لیے
اور ان کو گھر بنانے کی چاہت نہیں ہمیں


یوں بند ہو گئے ہیں دریچے بھی سوچ کے
اب تو کسی سے کوئی شکایت نہیں ہمیں


محسوس جو کریں وہی کہتے ہیں برملا
کچھ دل میں بات رکھنے کی عادت نہیں ہمیں


تیرا خیال دل میں سمایا ہے اس طرح
کچھ اور سوچنے کی ضرورت نہیں ہمیں


غم اور خوشی تو نازؔ مقدر کا کھیل ہے
شکوہ کسی سے کرنے کی عادت نہیں ہمیں