ہم نہ ہوتے بھی تو اتنا ہوتے

ہم نہ ہوتے بھی تو اتنا ہوتے
کہیں دریا کہیں صحرا ہوتے


جانے کیا خود کو سمجھ رکھا ہے
یہ جو حسرت ہے کہ رسوا ہوتے


ہم سمٹ جاتے جو بانہوں میں تری
تیری انگڑائی کا دریا ہوتے


تم سے الفت جو نہ ہوتی ہم کو
جانے کس کس کی تمنا ہوتے


سیکھ لی ہم نے بھی دنیا داری
کاش ہم صاحب دنیا ہوتے


دیکھ لیتے جو کہیں آئینہ
ہم بھی حیرت کا سراپا ہوتے