ہم کریں کس پہ بھروسہ کہ یہاں سب جھوٹے

ہم کریں کس پہ بھروسہ کہ یہاں سب جھوٹے
یہ محبت یہ محبت کے نشاں سب جھوٹے


کوئی ایسا نہیں مشکل میں جو کچھ کام آئے
کس کا ہم ذکر کریں جان جہاں سب جھوٹے


ہم نے دیکھا ہے وہ منظر کہ لرز جاتا ہے دل
کیسے کہہ دیں کہ نہیں اہل جہاں سب جھوٹے


راحتیں خواب سہی تم تو حقیقت ٹھہرے
بات اک سچ ہے یہی باقی نشاں سب جھوٹے


دل بھی اپنا نہیں ناحق ہے شکایت ان کی
جس قدر بھی ہوں محبت میں گماں سب جھوٹے


عین ممکن ہے کہ طوفاں میں بدل دیں تیور
جو سفینے ہیں سمندر میں رواں سب جھوٹے


ان کی تصویر بھی مٹ جائے گی اک دن انجمؔ
یہ نظارے کہ جو ہیں رنگ فشاں سب جھوٹے