حیرت فروش

کتابوں سے نکلتے ہی نگاہیں اشتہارں پرپڑنے لگیں۔اشتہار اور انٹرویو کے چکّرمیں وہ دربدرپھرنے لگا۔اس چکّر میں اسے چکّرآنے لگے۔آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا۔پاؤں لڑ کھڑانے لگے۔مگرایک دن ایک اشتہار سے اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔
’’ضرورت ہے حیرتوں کی۔ ایک ایک حیرت کا منہ مانگادام—حیرت فروش اس پتہ پر رجوع کریں۔‘‘
(ادارۂ حیرت ،عجائب خانۂ نو،کائنات گنج،آفاق نگر۔)
وہ حیرتوں کی تلاش میں نکل پڑا———
ایک جگہ ایک بے قصورجسم پر سڑاک سڑاک کوڑے برس رہے تھے۔ بے رحم چابک کی چوٹ پرکچّے بدن کی نرم ونازک چمڑی جگہ جگہ سے اُدھڑرہی تھی۔سفیدچربی پِگھل پِگھل کر باہر نکل رہی تھی۔مظلوم کی چیخ وپکارپرزمین وآسمان دہل رہے تھے۔لوگ تماشائی بنے کھڑے تھے۔ اس کی آنکھیں پھیل گئیں ۔کوڑوں کی مسلسل ضرب پراس کاوجود جھنجھنااُٹھا۔
آگے بڑھاتو ایک مقام پر———
ایک بن بیاہی عورت ماں بنی بیٹھی تھی۔ماں اور بچّے دونوں کو سنگ سارکیا جارہاتھا۔ پتھرمارنے والوں میں بچّے کا باپ بھی شامل تھا۔
اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔وہ لرزاُٹھا۔کچھ اورآگے بڑھاتودیکھا:
کمان کی طرح جھکی رہنے والی گردن بندوق کی نال کی طرح تنی ہوئی تھی۔دینے والا ہاتھ پھیلاہواتھا۔لینے والادے رہاتھا۔
اعجوبہ اندازدیکھ کروہ حیران رہ گیا۔
شہرشہر،قریہ قریہ،گاؤں گاؤں،گلی گلی گھوم گھوم کراس نے بہت ساری حیرتیں جمع کیں اوران حیرتوں کے عوض میں ملنے والی منہ مانگی رقم کے تصوّر میں جھومتا ہوااداراۂ حیرت کے دروازے پر پہنچ گیا۔
’’جناب!میں حیرتیں لایا ہوں۔‘‘
’’کیا؟حیرتیں لاے ہو؟‘‘
’’جی،بہت ساری حیرتیں لایاہوں‘‘
’’دِکھاؤ!‘‘
’’مجھے ان کے منہ مانگے دام ملیں گے نا؟‘‘
’’ضرور ملیں گے۔‘‘
’’آ پ سچ کہہ رہے ہیں نا؟‘‘
’’ہاں،ہاں،میں بالکل سچ کہہ رہاہوں مگر پہلے اُنہیں دکھاؤتو۔‘‘
’’ابھی دِکھاتاہوں۔لیجیے،یہ پہلی حیرت ملاحظہ کیجیے۔‘‘
بن بیاہی عورت ماں بن گئی۔
’’دُوسری دِکھاؤ!‘‘
جرم ثابت ہوجانے کے باوجود مجرم برَی ہوگیا۔
’’تیسری دِکھاؤ!‘‘
قاتل کو انعام سے نوازاگیا۔
’’کوئی اوردِکھاؤ!‘‘
گلابوں پر گیندے کھِلے۔
’’کوئی اور!‘‘
شاخ سے ثمر ٹوٹا زمین پر نہیں گِرا۔
’’اور!‘‘
پانی میں آگ لگ گئی۔
’’اورکوئی!‘‘
سائبانوں سے دھوپ برستی ہے۔
’’اور‘‘
آسمان زمین پر اُترآیا۔
’’اور‘‘
زمین آسمان پرپہنچ گئی۔
’’کوئی اور‘‘
’’عجیب ہیں آپ! اوراور کی رَٹ لگائے جارہے ہیں مگر ایک بھی حیرت پرآپ کی آنکھیں نہیں پھیلیں۔پیشانی پر کوئی لکیر نہیں اُبھری۔کیا یہ حیرتیں آپ کو حیرت انگیزنہیں لگیں؟‘‘
’’حیرتیں!حیرت انگیز!نہیں ؟مجھے تو نہیں لگیں۔‘‘
’آپ مذاق کررہے ہیں جناب!’‘‘
’’نہیں،میں مذاق بالکل نہیں کررہاہوں۔‘‘
’’توکیا سچ مچ یہ آپ کو حیرت انگیزنہیں لگیں؟‘‘
’’میں سچ کہہ رہاہوں،مجھے اِن میں حیرت کا شائبہ بھی نظرنہیںآیا۔‘‘
’’کہیں آپ کے حواس بیمارتونہیں ہیں؟‘‘
’’نہیں،میرے حواس بالکل دُرست ہیں۔‘‘
’’نہیں صاحب!ضرور آپ کے حواس میں کوئی خرابی آگئی ہے ورنہ———‘‘
’’نہیں بھائی!میرے حواس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔کہوتومیں اپنا ڈاکٹری معائنہ کرا کر دِکھادوں۔تب تویقین کروگے نا؟‘‘
’’ہاں،معائنے کے بعد مجھے یقین آجائے گا۔‘‘
’’توٹھیک ہے۔آؤمیرے ساتھ۔‘‘ادارۂ حیرت کا مینجراسے لے کرڈاکٹر کے پاس پہنچ گیا۔مختلف طرح کی مشینوں سے مینجر کے حواس کی جانچ ہوگئی۔ڈاکٹر رپورٹ دیکھ کر مینجرسے بولا۔
’’آپ کے حوا س بالکل صحیح ہیں۔کہیں کوئی خرابی یاخامی نہیں ہے۔‘‘
’’رپورٹ سن کر اس نے ڈاکٹر کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا‘‘
’’تعجب ہے !ان کے حواس میں کوئی خرابی نہیں ،پھربھی انہیں حیرتیں حیرت انگیز نہیں لگتیں ۔مگر یہ کیسے ہوسکتاہے؟‘‘اس نے ڈاکٹرکومخاطب کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب!یہ حیرتیں جن پرمیں اب تک حیران ہوں۔جنھیں دیکھ کرمیری آنکھیں جل جل گئی ہیں۔پلکیں بھیگ بھیگ گئی ہیں۔چہرہ بگڑبگڑساگیاہے۔دل دھڑک دھڑک اُٹھا ہے۔ دماغ ماؤُف ساہوہوگیاہے۔وجودلرزلرزاُٹھاہے،ان کے لیے اُن میں حیرانی کی کوئی بات ہی نہیں ہے؟ ———سمجھا! یہ ضرور کوئی ڈراما کررہے ہیں تاکہ میری اتنی ساری حیرتوں کے منہ مانگے دام نہ دینے پڑیں۔ڈاکٹرصاحب!میں نے انہیں بڑی مشقّت اورمشکل سے جمع کیاہے۔برسوں تگ ودو کی ہے۔‘‘
دھوپ میں خودکوتپایاہے۔
بارش میں جسم کو بھگویاہے۔
تن من پرکڑاکے کی سردیاں جھیلی ہیں۔
تنگ وتاریک راہوں میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔
روحانی اذیتیں برداشت کی ہیں۔
تب جاکریہ میرے ہاتھ لگی ہیں۔ڈاکٹر !ان سے کہیے کہ اگریہ منہ مانگے دام نہیں دے سکتے تواپنی مرضی سے جوچاہیں دے دیں،میں اسی پرقناعت کرلوں گا مگر————— ’’دیکھو! میں کوئی ڈراماورامانہیں کررہاہوں اور نہ ہی میری نیت میں کوئی کھوٹ ہے۔تم جوکچھ اپنے ساتھ لائے ہواگر یہ حیرتیں ہوتیں تو میں واقعی تمھیں منہ مانگے دام دیتا—— اچھّا،اگرتم کومجھ پریقین نہیں آرہا ہے تومیں لوگوں کو جمع کرتاہوں تم اِنہیں اُن کے سامنے رکھو۔اگروہ انہیں حیرت تسلیم کر لیتے ہیں تومیں تم جومانگو گے،دینے کے لیے تیارہوں۔‘‘
مینجر نے لوگوں کو جمع کیا۔ایک ایک کرکے اس نے ساری حیرتیں ان کے سامنے رکھ دیں مگرکسی بھی حیرت پرکوئی آنکھ نہیں پھیلی۔کسی بھی چہرے پر کوئی اثر مرتّب نہیں ہوا۔اس کی حیرانی اوربڑھ گئی۔کچھ دیرسوچنے کے بعد اس نے اپنے شہبے کااظہارکیا۔
’’یہ بھی توہوسکتاہے کہ تمام لوگ کسی دباکے شکارہوں؟سب کے حواس بیمار پڑ گئے ہوں؟‘‘
’’تمہارایہ شک بھی ہم دورکیے دیتے ہیں——‘‘اُس نے ڈاکٹر کومخاطب کیا۔
’’ڈاکٹر!پلیز ان سب کا معائنہ بھی کردیجیے۔‘‘
تمام لوگوں کا بھی معائنہ ہوگیا۔کسی میں کوئی خرابی نہیں نکلی۔
پھیل کر اس کے دیدے اوربڑے ہوگئے۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ جانچ مشین ہی خراب ہو؟‘‘اس کے ذہن میں ایک اوراندیشے نے سراُٹھایا۔
’’تمہارا یہ شک بھی ہم دورکرادیتے ہیں ،مشینوں کو بھی جانچ کردیکھ لیتے ہیں۔‘‘
مشینوں کی بھی جانچ ہوگئی۔مشینیں ٹھیک تھیں۔
اس کاسرندامت سے جھک گیا۔
’’مجھے افسوس ہے نوجوان کہ تمہاری محنت رائیگاں گئی۔ایک بارپھرکوشش کرو۔ ممکن ہے دوسری بارکامیاب ہوجاؤ۔‘‘
احساسِ ناکامی اور ندامت کے بوجھ کے ساتھ وہ وہاں سے لوٹ آیامگر اس کی تلاش جاری رہی۔اسے وہ تمام حیرتیں پھر سے دِکھائی پڑیں جنھیں وہ اداراۂ حیرت میں چھوڑآیاتھا۔ان کے علاوہ اس نے یہ بھی دیکھا:
باپ بیٹی کے ساتھ زنا میں مشغول تھا
بیٹا ماں کے اوپرسوار تھا
رہبررہزنی کررہاتھا
محافظ تحفظ کاگلاگھونٹ رہاتھا
اندھادیکھ رہاتھا
آنکھ والا ٹھوکرکھارہاتھا
لنگڑادوڑرہاتھا
پاؤں والاگراپڑاتھا
لولھا مال وزربٹوررہاتھا
ہاتھ والا دستِ نگرتھا
دریاکوزے میں بندتھا
زہربے اثرتھا
صدا بے صوت تھی
سرخ سفیدتھا
سفید سیاہتھا
مگر کسی بھی حیرت پراس کی آنکھیں نہیں پھیلیں ۔چہرے پر لکیرنہیں اُبھری ۔پیشانی پر بل نہیں پڑا۔دل کی دھڑکن تیز نہیں ہوئی۔سماعت نہیں لرزی ۔دماغ ماؤُف نہیں ہوا۔ اسے اپنے آپ پر تعجّب ہوا۔اسے محسوس ہواجیسے اس کے حواس بے کارہوگئے ہوں۔
وہ حیرتوں کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکتارہا۔کہیں بھی کوئی حیرت ہاتھ نہیں آئی۔کئی برس بیت گئے——آنکھوں میں اندھیراگھلنے لگا۔مایوسیاں دل ودماغ میں ڈیراڈالنے لگیں۔ ایک دن ایک حادثے پرنظرپڑی ۔اسے اس پرحیرت کاگمان ہوا۔ وہ اپنی پھیلی ہوئی آنکھوں میں اس حادثے کوسمیٹے اداراۂ حیرت کی طرف بھاگا۔
’’تم کون ہو؟‘‘
’’میں وہی ہوں جوبرسوں پہلے بہت ساری حیرتیں لے کرآیاتھا مگر میری ایک بھی حیرت نہیں بِکی تھی۔‘‘
’’اب کس لیے آئے ہو؟‘‘
’’پھرحیرت لے کرآیاہوں۔‘‘
’’دِکھاؤ!‘‘
’’کسی کی قابلیت اس کے کام آگئی۔‘‘
’’کیا؟قابلیت بارآورہوگئی؟‘‘مینجر کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’جی ہاں،میں سچ کہہ رہاہوں۔‘‘
’’اب کے تم واقعی حیرت لے کرآئے ہو؟جاؤ!کیشےئر سے اس کی منہ مانگی قیمت وصول کر لو مگر جانے سے پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ یہ حیرت تمھیں کہاں ملی ؟اگرتم خود ہماری رہنمائی کرسکو تواس کاہم تمھیں الگ سے معقول معاوضہ دیں گے۔‘‘
’’ضرور ‘‘اس نے کیشئیر سے قیمت وصول کی اوراُن کی رہنمائی کرتاہواجائے وقوع تک پہنچ گیا۔
’’ہم لوگ اداراۂ حیرت سے حاضر ہوئے ہیں۔‘‘مینجرنے تعارف کرایا۔
’’فرمائیے!‘‘اس جگہ کسے افسرِ اعلا نے ان کے آنے کا سبب دریافت کیا۔
’’ہم لوگ آپ کو سَمّانِت کرناچاہتے ہیں۔‘‘
’’سمّانِت کرناچاہتے ہیں!مگرکیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ آپ نے ایک حیرت انگیز کارنامہ انجام دیاہے۔‘‘
’’حیرت انگیزکارنامہ!کون سا کارنامہ؟‘‘
’’آپ نے ایک شخص کی لیاقت تسلیم کرلی۔ اُسے اس کی قابلیت کاثمرہ دے دیا۔‘‘
’’ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘یکایک افسرکے منہ سے قہقہوں کافوّارہ ابل پڑا۔
’’آپ ہنس رہے ہیں؟‘‘اداراۂ حیرت کے کارکن اسے اِس طرح دیکھنے لگے جیسے کوئی ایک اور اعجوبہ ان کے سامنے آکرکھڑاہوگیاہو۔
’’ہنسوں نہیں تواورکیاکروں صاحب؟‘‘مشکل سے افسرنے اپنی ہنسی کوروکا۔‘‘
’’میںآپ کا مطلب نہیں سمجھا؟‘‘مینجر کی حیرانی اوربڑھ گئی۔
’’جناب!اس قابل شخص کا انتخاب اس لیے نہیں ہواکہ وہ قابل تھا؟‘‘
’’پھر؟‘‘
’’دراصل ہم اپنے سابقہ عمل سے اوب چکے تھے۔یہ تبدیلی ویسی ہی ہے جیسے ہم اپنے پرتکلف دسترخوان پر کبھی چٹنی روٹی کی فرمائش کربیٹھتے ہیں۔‘‘
رُکاہوافوّارہ پھرسے جاری ہوگیا۔
اداراۂ حیرت کے مینجر اوراس کے کارکنوں کی پھیلی ہوئی آنکھیں ایک دم سے سکڑ گئیں۔جیسے یکایک کوئی نشتر چبھو کران کے دیدوں کے اندرسے ڈلے ٹکالے لیے گئے ہوں۔
(افسانوی مجموعہ حیرت فروش ازغضنفر، ص 48)