ہاتھ میں آفتاب پگھلا کر

ہاتھ میں آفتاب پگھلا کر
رات بھر روشنی سے کھیلا کر


یوں کھلے سر نہ گھر سے نکلا کر
دیکھ بوڑھوں کی بات مانا کر


آئنہ آئینے میں کیا دیکھے
ٹوٹ جاتے ہیں خواب ٹکرا کر


ایک دم یوں اچھل نہیں پڑتے
بات کے پینترے بھی سمجھا کر


دیکھ ٹھوکر بنے نہ تاریکی
کوئی سویا ہے پاؤں پھیلا کر


اونٹ جانے کدھر نکل بھاگا
جلتے صحرا میں ہم کو ٹھہرا کر