حال حجاب قابل شرح و بیاں نہیں
حال حجاب قابل شرح و بیاں نہیں
آنسو نہ ٹپکے سن کے یہ وہ داستاں نہیں
دل میں جگر میں سینے میں پہلو میں آنکھ میں
اے عشق تیری شعلہ فشانی کہاں نہیں
کرتے ہو قتل بو الہوسوں کو غضب ہے یہ
سمجھے ہو تم مگر کوئی عاشق یہاں نہیں
پوچھو نہ حال زار مرا تم سے کیا کہوں
گم کردہ راہ باغ ہوں یاد آشیاں نہیں
ہم بھی خرید لیتے ترے ظلم کے لئے
بازار دہر میں کوئی دل کی دکاں نہیں
دیتے ہیں چھیڑ چھیڑ کے کیوں مجھ کو گالیاں
سمجھے ہوئے ہیں وہ مرے منہ میں زبان نہیں
وہ اور مرے گھر میں چلے آئیں خود بخود
سر پر مرے حجاب مگر آسماں نہیں