غنچے وہی ہیں گل وہی گلزار بھی وہی

غنچے وہی ہیں گل وہی گلزار بھی وہی
دست جنوں سنبھلنا کہ ہیں خار بھی وہی


ہیں انتظار سنگ میں اسمار بے شمار
اور انکسار سے جھکے اشجار بھی وہی


خوش ہو کے جھوم لیتی ہے اکثر تو زندگی
لیکن وفور غم سے ہے بیزار بھی وہی


ہے شہریار جس کو نہ ہو زر کی احتیاج
اہل دول کے شہر میں مختار بھی وہی


مر مر کے جی رہا ہوں ترے بعد و قرب میں
انکار بھی وہی ترا اقرار بھی وہی


کرتا ہے وہ نصائح سدا امن کی مگر
سارے جہاں سے برسر پیکار بھی وہی


کیا ہے شکیلؔ دنیا کہ اس کی نگاہ میں
جو سب کے کام آتا ہے بیکار بھی وہی