گناہ گار شاعر کی بے گناہ نظمیں
کل میری دو نظمیں بازار گئیں
جو جڑواں بہنیں تھیں
مگر واپس نہیں لوٹیں
ان دنوں کرفیو کے باعث
کھلے عام گھومنا ممنوع تھا
لیکن میں نے دن کی رفتار سے تیز بھاگتے ہوئے
شہر کا چکر کاٹا
رات کے سائے کے ڈر سے
مسجدوں میں اعلان کروائے گئے
مگر دہشت کے بستر میں دبکے لوگ
کچھ نہیں جانتے
کس کی پھٹی ایڑیوں سے رستا خون
لکیریں کھینچ رہا ہے
آخر افسردگی سے دیوار میں لگا ٹی وی آن کیا
سپر مارکیٹ دھماکے سے اڑا دی گئی
میں بھاگتا جائے وقوع پہنچا مگر
پانی سے موت کے نشان
گٹر میں بہائے جا چکے تھے
اب بے یقینی کے سگریٹ پھونکتا
قبروں کے پاس بیٹھا ہوں
جہاں بم دھماکے میں مری روحیں دفن ہیں
مگر میری نظموں کی قبر کون سی ہے
کہ مٹی کے چہرے سے پہچان ممکن نہیں
اور میں
مرنے سے پہلے کتبہ لگانا چاہتا ہوں
یہاں گنہ گار شاعر کی بے گناہ نظمیں دفن ہیں