غلام گردش

اس نے پنجوں کے بل اچک کر لوہے کے گیٹ کا کنڈا کھولا جس سے کھٹ پٹ کچھ زیادہ ہوئی اور میں اس کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اسے گیٹ کا پٹ تھوڑا سا کھول کر اندر داخل ہوتے دیکھا، پھر دھیرے دھیرے اپنی طرف بڑھتے ہوئے اور اب وہ میرے سامنے کھڑی تھی۔


مجھے اس کا اس طرح آنا اچھا لگا کیوں کہ مجھ سے ملاقات کرنے کے لیے جو لوگ آتے ہیں وہ اس طرح داخل نہیں ہوتے۔ کاروں سے آنے والوں کے علاوہ باقی لوگ عام طور سے گیٹ سے پہلے ذرا سا رک کر ایک بار اپنے کپڑوں پر نظر ڈالتے ہیں، گرد و غبار کا نشان ہو یا نہ ہو، پینٹ کی مہر یوں اور شیروانی کے دامن اور سامنے کے اوپر والے حصے کو رومال سے دھیرے دھیرے جھاڑنے، بالوں پر ہاتھ پھیرنے اور پھر اسے کھول کر چہرہ صاف کرنے کے بعد تہہ کرکے جیب میں رکھتے ہیں اور اندر داخل ہوتے ہی جھک جھک کر سلام کرنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے چلتے ہوئے دالان میں بچھی ہوئی کرسیوں پر ادب سے بیٹھ جاتے ہیں۔ میں ہلکی سی مسکراہٹ سے ان کا خیرمقدم کرتا ہوں لیکن کھڑے ہوکر استقبال صرف ان لوگوں کا ہوتا ہے جن کو کسی نہ کسی سبب میں اس کا مستحق سمجھتا ہوں اور جو صوفوں پر بٹھائے جاتے ہیں۔ یہ لگ عام طور سے ذاتی سواریوں سے آتے ہیں۔


میرا صوفہ چوں کہ چبوترے پر رکھا ہوا ہے اور یہ چبوترہ زمین سے فٹ سوا فٹ اونچا ہے اس لیے مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ گیٹ اور سڑک کے درمیان کی پکی زمین پر لوگ کیا کر رہے ہیں لیکن یہ بچی چوں کہ بہت چھوٹی تھی اس لیے میں اس کے چھوٹے چھوٹے پیر ہی دیکھ سکا تھا جن میں وہ ربر کی پرانی چپل پہنے ہوئے تھی۔ اسے دیکھ کر میں نے یہ نہیں سمجھا تھا کہ وہ میرے پاس آرہی ہے اور یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسے مجھ سے کوئی کام ہوسکتا ہے۔


یوں تو دن خاصا چڑھ آیا تھا لیکن کہرے اور بادلوں نے سردیوں کے ان دنوں کو جو ویسے بھی چھوٹے ہوتے ہیں اور چھوٹا کردیا تھا، اور صبحیں خاصی نیچے کھسک آئی تھیں۔ اگرچہ کمرے سے نکل کر لان میں میرے آبیٹھنے کا یہ وقت نہیں تھا لیکن تھوڑی دیر قبل بادلوں کی پرت چیر کر سورج کی کرنوں نے اپنے پنکھ پھیلانے کا ڈھونگ رچنا شروع کیا تو میں بھی اس راس لیلا کا مزا لینے کے لیے کمرے سے باہر آکر یہاں بیٹھ گیا تھا۔


اسے دیکھ کر میں سمجھا تھا کہ کسی ملازمہ کی بیٹی ہوگی اور ان کے داہنی جانب کے دوسرے راستے سے گھر میں چلی جائے گی یا پھر غلام گردش کی جانب جس کے چھوٹے چھوٹے کوارٹر پاس میں ہی بنے ہوئے تھے۔ لیکن وہ نہ تو میرے گھر کے دروازے کی طرف بڑھی نہ غلام گردش کی جانب مڑی۔ اسے اس طرح اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر میں نے سوچا کہ شاید اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ڈانٹ کھائے بغیر کس طرح میرے سامنے سے کھسک جائے۔ وہ ذرا بڑی ہوتی تو میں اب تک اسے ڈانٹ چکا ہوتا لیکن ایک تو وہ بہت چھوٹی تھی اور دوسرے پلک جھپکائے بغیر مجھے گھورے جارہی تھی۔ اس لیے میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیسے سمجھاؤں۔


چنانچہ میں نے ہاتھ سے غلام گردش کی طرف اشارہ کیا اور دوسری طرف دیکھنے لگا تاکہ اسے بھاگ جانے میں آسانی ہو لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو میں نے اسے اس طرح دیکھا کہ اس کی سمجھ میں آجائے کہ اب اس کا یہاں ٹھہرے رہنا ٹھیک نہیں ہے لیکن اس کا بھی اس پر کچھ اثر نہ ہوا تو میں نے بھویں اچکا کر اسے تھوڑے سے غصہ سے دیکھا۔ اس کی سمجھ میں کیا آیا اور کیا نہیں یہ تومجھے نہیں معلوم لیکن اپنے چہرے سے کسی قسم کی پریشانی یا گھبراہٹ ظاہر کیے بغیر اس نے کہا۔


’’اماں نے تھوڑا سا تیل مانگا ہے!‘‘ اپنی بات پوری کرکے وہ کٹوری کی طرف دیکھنے لگی جو اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس کا سوال سن کر مجھے ہنسی آنے ہی والی تھی لیکن میں نے اپنے ہونٹ تک کھلنے نہ دیے او رچہرہ سنجیدہ بناکر آنکھیں اس طرح گھمائیں جیسے پوچھ رہا ہوں کہ ’’کون اماں؟‘‘ اور ’’میں تیل کہاں سے لاؤں؟‘‘


’’ہماری اماں۔‘‘ اس نے کہا اور غلام گردش کی طرف اشارہ کرکے بولی، ’’وہاں۔‘‘ اس وہاں کے معنی تھے کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس کی اماں کہاں رہتی ہے۔


بھائی صاحب کے مکان کی پشت تو پتلی سی گلی کی جانب ہے لیکن دونوں گھروں کے ملازمین کے کوارٹر آمنے سامنے ہیں اس لیے نوکروں اور ان کے بچوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ بچی ضرور بھائی صاحب کے یہاں کے کسی ملازم یا ملازمہ کی ہے اور چوں کہ بھائی صاحب ذرا سی بات پر ہنسنے لگتے ہیں اس لیے شاید اسے معلوم ہی نہیں کہ غصہ کیا ہوتا ہے۔ لیکن یہ تو گیٹ کھول کر اندر آئی تھی، میں نے سوچا۔ اسی وقت مجھے خیال ہوا کہ باہر کے راستے سے شاید اس لیے آئی ہو کہ اسی بہانے کچھ صورتیں اور ان دوتین چھوٹی چھوٹی دوکانوں میں، جو راستے میں پڑتی ہیں، رکھی ہوئی چیزیں بھی دیکھ لے گی۔


میں نے اس لڑکی کو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، پھر بھی جانے کیسے مجھے یقین ہوتا جا رہا تھا کہ یہ بھائی صاحب کے یہاں کام کرنے والوں میں سے ہی کسی کی بچی ہے اور یہاں غلطی سے آگئی ہے۔ میرا جی چاہا کہ اس بچی سے جو بہت بھولی بھالی تھی کچھ اور باتیں کروں۔ اس لیے یہ بتانے کے بجائے کہ اسے اس طرف نہیں بلکہ اس طرف جانا چاہیے تھا، میں نے اس سے پوچھا۔


’’تیری ماں تیل کا کیا کرے گی؟‘‘


’’تیل کا؟‘‘


’’اور نہیں تو کیا میرا؟‘‘


وہ ہنس دی، شاید سمجھی نہیں اور یہ اچھا ہی ہوا کیوں کہ جو الفاظ میرے منہ سے نکل گئےتھے، کوئی چاہتا تو ان کا مذاق بھی اڑا سکتا تھا، میرے سامنے نہیں، کیوں کہ ایسا کرنے کی ہمت کوئی نہیں کرسکتا لیکن اس طرح کی باتوں کا مجھے علم ضرور ہو جاتا ہے، کسی کے بتائے بغیر بھی۔ عمر کے ستر بہتر برسوں میں بہت کچھ سیکھ لیا ہے میں نے۔


’’ترکاری بنائیں گی۔‘‘ اس نے کہا۔ مجھے ہنسی آگئی اور میں نے اپنی ہنسی اس بار چھپائی نہیں۔ وہ بھی مسکرادی۔ اس کی مسکراہٹ مجھے اچھی لگی اورمیں نے سوچا کہ چھیتن کو بلاکر اسے تھوڑا سا تیل دلوادوں لیکن اسی وقت مجھے خیال آیا کہ اس بچی کو تیل دلوا دیا تو ممکن ہے وہ راستے میں گرادے اور بعد میں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس کی ماں کچھ نہ کچھ منگانے کے لیے اسے ہر دوسرے تیسرے دن بھیجنے لگے اور بات پھیل گئی تو یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری نوکرانیاں یا نوکروں کی بیویاں بھی یہی کرنے لگیں۔ یہ عورتیں کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ یہ سوچ کر میں نے اس سے کہا، ’’اپنی ماں سے جاکر کہہ دو کہ انہوں نے کہا ہے تیل نہیں ہے۔‘‘


اس نے مجھے کچھ اس طرح دیکھا جیسے کہنا چاہتی ہو، ’’تم تو ایسے آدمی نہیں لگتے ہو۔‘‘ اور گیٹ کی طرف چل دی لیکن ہر دوچار قدم کےبعد وہ پلٹ کر مجھے دیکھ ضرور لیتی تھی۔ ممکن ہے سوچ رہی ہو کہ یہ بات میں نے یوں ہی کہہ دی ہے اور میں اسے آواز دے کر بلالوں گا۔ شاید اسی لیے گیٹ کا پٹ کھولتے ہوئے بھی اس نے مجھے پلٹ کر دیکھا، اس کے چہرے پر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے چھیتن کو آوازدی اور اس کے آنے کے بعد پہلی بات اس سے یہی پوچھی کہ یہ کس کی لڑکی ہے اور کیا اس کے ماں باپ میں سے کوئی بھائی صاحب کے یہاں کام کرتا ہے۔


چھیتن نے گیٹ کی طرف دیکھا، جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو، لیکن اس کے چہرے سے حیرت زیادہ ظاہر ہو رہی تھی اور کچھ یاد کرنے کی کوشش کم۔ حیرت اسے شاید اس پر تھی کہ میں اتنی سی بچی کے ماں باپ کے بارے میں کیو ں پوچھ رہا ہوں۔ لیکن جب اس نے دیکھاکہ میں اس کے چہرے پر نگاہیں گاڑے ہوئے ہوں تو اس نے پہلے ماں کا نام بتایا اور پھر باپ کا۔ لیکن اس کی ماں کا نام میں اسی وقت بھول گیا کیوں کہ گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کے نام کچھ اس قدر ایک سے ہوتے ہیں کہ انہیں یاد رکھنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوتی اور اس کا کچھ فائدہ بھی نہیں ہوتا۔ اس کے باپ کا نام البتہ مجھے یاد رہ گیا بلکہ سچ پوچھیے تو مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا کیوں کہ وہ برسوں سے بھائی صاحب کےیہاں ملازم ہے۔ اسی کے نام کا ایک نوکر کئی سال پہلے ہمارے یہاں تھا اس لیے انہوں نے اس کا نام بدل دیا تھا اور اب شاید اسے خود بھی نہ یاد رہ گیا ہو کہ اس کا اصلی نام کیا تھا۔


یہ باتیں سوچتے سوچتے میں قطعاً بھول گیا کہ میں نے چھیتن کو کیوں بلایا تھا لیکن جیسے ہی اس نے پوچھا، ’’اور کوئی کام صاحب؟‘‘ مجھے سب کچھ یاد آگیا اور میں نے اس سے کہا کہ کڑوے تیل کا آدھے کلو کامہر بند ڈبا خرید کر اس کے یہاں دے آئے۔ میری بات سن کر چھیتن کو ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ میں اپنے ہاتھ سے کسی کو بھی کچھ نہیں دیتا اور یہ کہ روپے پیسے عام طور سے اپنی جیب میں نہیں رکھتا۔ میری بات سنتے ہی وہ مڑا لیکن ابھی تھوڑی دور ہی گیا ہوگا کہ میں نے اسے دوبارہ آواز دی اور جب وہ پاس آگیا تو اس سے کہا کہ تیل کے مہر بند ڈبے کے بجائے اتنا ہی تیل پل والی دوکان سے خرید کر اس کے یہاں دے آئے۔ ابھی وہ چار چھے قدم ہی آگے بڑھا ہوگا کہ میں نے اسے پھر آواز دی، آہستہ سے۔ وہ فوراً ہی پلٹا تو میں نے زور دے کر اس سے کہا، ’’برتن واپس ضرور لے لینا۔‘‘


چھیتن کو پیسے دینے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ کم سے کم میرے والد کے زمانے سے ہمارے یہاں یہ طریقہ چلا آ رہا ہے کہ ملازموں کی ایمانداری کا طرح طرح سے امتحان لینے کے بعد سب سے زیادہ ایماندار پائے جانے والے ملازم کو دوسروں سے کچھ الگ حیثیت دے دی جاتی ہے اور اس پر گھر کے لوگوں کی طرح بھروسہ کیا جاتا ہے۔ شروع مہینے میں اسے ہزار پان سو روپے دے دیے جاتے ہیں اور جب یہ روپے ختم ہونے کے قریب ہوتے ہیں تو وہ حساب کا پرچہ پیش کردیتا ہے۔ یہ پرچہ اس کے سامنے ہی کسی چیز سے دباکر یا میز پر رکھی ہوئی کسی کتاب میں رکھ دیا جاتا ہے اور آگے کے خرچ کے لیے روپے دے دیے جاتے ہیں۔ روپے دیتے وقت یہ بھی خیال نہیں رکھا جاتا کہ کتنے روپے بچ رہے ہیں اور سمجھا یہی جاتا ہے کہ اب اس کے پاس بس اتنے ہی روپےہیں جتنے اس وقت دیے گئے ہیں۔


اس کے چلے جانے کے بعد یہ پرچہ کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے اور اس کی جانچ پڑتال کبھی نہیں کی جاتی۔ ویسے ایک آدھ بار یہ بھی ہوا ہے کہ گھر کے کسی شخص نے پرچہ اٹھاکر پڑھنا شروع کردیا لیکن اس کا مقصد حساب کتاب میں کسی قسم کی گڑبڑی کا پتہ لگانے کے بجائے خود کو مصروف رکھنے یا یہ ظاہر کرنےکے علاوہ کہ اس کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود حساب کے پرچے کے بغیر یہ نہیں مانا جاتا تھا کہ پہلے والے روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ یہ سب کچھ چھیتن جانتا ہے اور والد کے زمانے کے اس سے پہلے کے ملازم کو بھی یہ بات ضرور معلوم رہی ہوگی۔


کسی نامحرم کو ہمارے گھر کے اندر جانے کی اجازت نہیں لیکن اس طرح کے ملازم سے بس کانا پردہ کیا جاتا ہے اور وہ ڈیوڑھی کے اندر تک جاسکتا ہے جہاں سے گھر کی خواتین پر اس کی نظر ضرور پڑتی ہوگی۔ کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ گھر کی کوئی بہو یا بیٹی پردے کی برائے نام اوٹ سے چھیتن سے کوئی ایسی چیز منگا لیتی ہے جس کانام ماں یا ساس کے سامنے لیتے اسے جھجھک محسوس ہوتی۔ اس طرح کی چیزوں کے لیے روپے الگ سے دیے جاتے ہیں، اوربچ رہنے والے پیسے یا روپے تک واپس نہیں مانگے جاتے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حساب کے پرچے میں اس کا ذکر نہیں ہوتا۔


’’اور کچھ تو نہیں منگوانا بیٹا‘‘ سے مراد ایسی ہی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جب بھی کوئی بہویا بٹیا ڈیوڑھی کے پاس سے گزرتی ہے یا وہاں آتی ہے، وہ یہ جملہ دہرانا نہیں بھولتا۔ ممکن ہے اس کا سبب وہ تھوڑے سے روپے پیسے ہوں جو کسی حساب کتاب کے بغیر اسے مل جاتے ہیں۔ لیکن ویسے بھی چھیتن خاصا ذمہ دار قسم کاملازم ہے اور اسے معلوم رہتا ہے کہ گھر میں کس کو کس چیز کی ضرورت ہونی چاہیے۔


برتن ضرور واپس لے آنے کی ہدایت کے پیچھے راز یہ تھا کہ میرے خیال میں چھتین چھوٹا سا پاکلہ یا ایسی ہی کوئی چیز لینے کے لیے ڈیوڑھی سے آوازیں لگانے اور پھر اسے واپس کرنے کے لیے اتنی ہی مشقت اٹھانے کے بجائے اپنے یہاں سے ہی برتن لے لے گا۔ میرے لیے اس میں دو فائدے تھے۔ پہلا یہ کہ بھائی صاحب کو پتہ نہ چل سکے گا کہ ان کے یہاں کام کرنے والے کسی آدمی یا اس کی بیوی نے اپنی چھوٹی موٹی ضرورت کے لیے مجھ سے مدد مانگی ہے۔ یوں تو بھائی صاحب کے پاس ہم لوگوں سے کہیں زیادہ دولت ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ذرا ذرا سی چیز کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں کی مدد کرنے سے ان کی عادتیں خراب ہوجاتی ہیں۔ خیر، مجھے اس سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن ان کی اس بات نے میرے لیے ہمیشہ پریشانیاں کھڑی کی ہیں کہ وہ نہیں چاہتے کہ ہم لوگ ان کے کسی ملازم یا کسی ایسے شخص کی جو اُن کےدروازے سے خالی ہاتھ لوٹا ہو کسی قسم کی مدد کریں۔ وہ اسے اپنی بے عزتی خیال کرتے ہیں اور میں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتا جو انہیں ناگوار ہو۔۔۔ دوسرا فائدہ یہ تھا کہ اس طرح گھر میں کسی کو معلوم نہ ہوسکے گا کہ کسی ملازمہ یا ملازم کی بیوی کی میں نے مدد کی ہے۔


برتن فوراً واپس لینے پر اس قدر زور دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرے خیال میں اس عورت کے یہاں اتنا بہت سا تیل رکھنے کے لیے کوئی چیز مشکل ہی سے ہوگی اور ہوئی بھی تو ضروری نہیں کہ اس وقت خالی اور دھلی دھلائی رکھی ہو۔ اس لیے وہ برتن کی واپسی میں ٹال مٹول ضرور کرے گی۔ اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ محض اس امید میں بہانے بنائے کہ شاید کام کی ریل پیل میں چھیتن سب کچھ بھول جائے۔ حالانکہ اس کی یادداشت اتنی خراب ہوتی تو وہ دن بھر کا حساب رات میں کیسے لکھتا۔ لیکن یہ بات شاید ہی اسے معلوم ہو۔ خیر، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ میں تو صرف یہ چاہتا تھا کہ اس کی چیز اسے واپس مل جائے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بے خیالی میں اس کا ذکر کسی دوسرے نوکر سے کردے۔


آٹھ دس دن بعد ایک رات غلام گردش کی طرف سے کسی عورت کےرونے کی ہلکی ہلکی آوازیں آنے لگیں۔ میں مکان کے جس حصے میں رہتا ہوں وہ باہر کی جانب ہونے کی وجہ سے ملازموں کے کوارٹروں کے پاس ہے، اس لیے یہ آوازیں مجھ تک پہنچ گئیں لیکن گھر کے اندر شاید ہی کسی نے انہیں سنا ہو۔ ہمارے قلعے ایسے مکان کی اونچی اور موٹی دیواروں سے باہر کی آوازوں کا چھن کر داخل ہونا ممکن نہیں ہوتا چنانچہ ہمارے یہاں کی عورتیں اونچی آواز میں باتیں کرتی ہیں اور یہ ان کی مجبوری بھی ہے۔


مجبوری یوں کہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا ہو کہ کوئی نہ کوئی رشتے دار اور اس کے بچے بچیاں ہمارے گھر میں نہ ہوتے ہوں۔ ویسے تو یہ رشتے دار دوچار دنوں کے لیے ہی آتے ہیں لیکن ہوتے ہوتے ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ بہت سوں کو تو دیکھ کر مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں انہیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ اس کے باوجود مجھے ظاہر یہی کرنا پڑتا ہے کہ میں انہیں خوب اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ لیکن یہ پریشانی بس دوچار منٹ ہی کی ہوتی ہے کیوں کہ طرح طرح کے چمکدار کپڑوں میں ملبوس عورتوں اور ان کے سدھائے ہوئے شوہروں اور بچوں بچیوں کو سمجھا دیا جاتا ہے کہ سلام کرکے بس ایک دو منٹ کھڑے رہیں اور پھر دوبارہ سلام کرکے واپس آجائیں۔


ان مہمانوں کے بچوں کی وجہ سے جب تک وہ سو نہیں جاتے، ٹی وی اونچی آواز میں چلتا رہتا ہے اور اس شور میں اکثریہ ہوتا ہے کہ ملازمائیں ڈانٹ پھٹکار سن نہیں پاتیں اور خواتین کو یہ کام دو دو تین تین بار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن چوں کہ آوازیں ایک دوسرے کو کاٹتی رہتی ہیں اس لیے مکان کے باہر ی حصہ کو ایک طرح کی جھنجھناہٹ ہر وقت گھیرے رہتی ہے اور خواتین کی آواز کا پردہ بھی قائم رہتا ہے۔


رونے کی آواز پر شروع میں تو میں نے کوئی توجہ نہیں دی لیکن جب اس نے کسی طرح تھمنے کا نام ہی نہیں لیا تو میں نے چھیتن کو بلاکر اس سے یہ پتہ لگانے کے لیے کہا کہ معاملہ کیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے بتایا کہ ایک عورت بیمار ہے اور یہ وہی عورت ہے جس کی بچی تیل مانگنے آئی تھی۔ یہ سن کر میری تشویش دگنی ہوگئی۔ غلام گردش میں رہنے والی کسی ملازمہ یا ملازم کی بیوی کے بیمار پڑجانے میں تو میرے لیے پریشانی کی کوئی بات نہ تھی لیکن گھبراہٹ مجھے اس بات کی تھی کہ میرا اور اس کا رشتہ مضبوط ہوتا جارہا تھا اور اگر یہ بات پھیل گئی تو بھائی صاحب تو خفا ہوں گے ہی، مجھے اندرون خانہ کے سوالوں کے جواب بھی دینا پڑیں گے۔


اس خطرے کا احساس کرتے ہوئے میں نے یہ فرض کرلیا تھا کہ میں اس کی دوادارو کے لیے کچھ کروں گا تو لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ وہی عورت ہے جس کے یہاں میں نے کڑواتیل بھجوایا تھا اور شاید مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ لوگ باگ ذکر چاہے نہ کریں لیکن سمجھیں گے یہی کہ یہ تو صرف دو باتیں ہیں جو ظاہر ہوگئی ہیں، ورنہ میں اس عورت کے لیے نہ جانے کب سے کیا کیا کچھ کرتا رہا ہوں گا۔


ویسے تو میں زیادہ تر باہر کے کمرے ہی میں رہتا ہوں اور اندرونِ خانہ کے افراد اور خاص طور سے بیگم صاحبہ سے کوئی بہت زیادہ تعلق نہیں رہ گیا ہے لیکن یک طرفہ خفگیوں اور طنز کے تیروں کا سامنا کرنا پڑتا ہی رہتا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کسی عورت کی وجہ سے، چاہے وہ بھائی صاحب کے ملازم کی بیوی ہی کیوں نہ ہو، میری پریشانیوں میں اضافہ ہوجائے۔ اگرچہ یہ بات بالکل صاف تھی کہ میں نے نہ تو تیل مانگنے کے لیے اس عورت کی ہمت افزائی کی تھی اور نہ اس کے کمرے سے رونے کی جو آوازیں آرہی تھیں ان سے میرا کسی طرح کا کوئی تعلق تھا۔ لیکن چوں کہ میں گھر کے باہر کم نکلتا ہوں اس لیے ہر وقت یہ خطرہ لگا رہتا ہے کہ معلوم نہیں کون کس وقت کیا لگائی بجھائی کردے اور میرے تین چار دن جہنم بن جائیں۔ وہ تو خیریت ہوئی کہ اس کا کوارٹر زنان خانہ سے ذرا فاصلہ پر تھا اور تہوار کی وجہ سے غلام گردش میں رہنے والے مردوں اور عورتوں کی اپنے اپنے کاموں سے ابھی واپسی نہیں ہوئی تھی۔ نہیں تو طرح طرح کی باتیں نہ جانے کب کی پھیل چکی ہوتیں۔


میں نےاس مشکل سے نجات حاصل کرنے کی ترکیبوں پر غور کرنا شروع کیا تو پہلی بات جو ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ میں اس آواز پر توجہ نہ دوں لیکن اس میں خطرہ یہ تھا کہ لوگ کہیں گے کہ میں سنی ان سنی کر رہا ہوں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ رونے کی آواز جو کبھی کبھی بہت تیز ہو جاتی ہے مجھ تک نہ پنچیہ ہو اور جب یہ طے ہوجائے گا کہ میں جان بوجھ کر ان آوازوں کے بارے میں ایسا بن گیا ہوں جیسے کچھ ہو ہی نہ رہاہو تو ظاہر ہے لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے شکوک ضرور پیدا ہوں گے۔


اس طرح کا خطرہ تو مدد کرنے میں بھی ہے، میں نے سوچا، تب ایک ترکیب سمجھ میں آئی کہ اندرونِ خانہ جاکر ساری بات بیوی کو بتادوں اور ان سے کہوں کہ کسی ملازمہ کو بھیج کر معلوم تو کرلیں کہ اس عورت کو کیا تکلیف ہے لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو بیگم صاحبہ تو مجھے مشکوک نظروں سے دیکھیں گی اور اگر زیادہ خفا نہ ہوئیں تو بھی طنزیہ لہجہ میں کم سے کم یہ ضرور کہیں گی کہ مجھے اب ان ملازماؤں کی صحت کا بہت زیادہ خیال رہنے لگا ہے۔ خیر یہ سب بھی ہمیشہ کی طرح برداشت کرلوں گا لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ جلی کٹی سنانے کے بعد بھی وہ اس کی کوئی مدد نہ کریں اور بعد میں گھر کی ساری عورتیں مجھے دیکھ کر کچھ اس طرح مسکراتی رہیں جیسے وہ مسکرائے بغیر مجھ پر ظاہر کر رہی ہوں کہ وہ سب کچھ جانتی ہیں۔۔۔ اس کے علاوہ سب سےبڑا خطرہ یہ تھا کہ بیوی کے درمیان میں آجانے کے بعد میرے لیے اس عورت کی مدد کرنا ناممکن ہوجائے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میری ساری رات رونے کی آواز سننے اور بستر پر کروٹیں بدلنے میں گزر جائے۔


اس سلسلے میں سارےخطروں کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنے کے بعد مجھے سب سے آسان اور محفوظ راستہ یہی نظر آیا کہ بیس پچیس روپے چھیتن کے ہاتھوں بھجوا کر اس کو کہلوادوں کہ ڈاکٹر کو دکھاکر دوا لے آئے۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ چھیتن سے اس عورت کو پچیس تیس روپے دے آنے کے لیے کہہ دوں لیکن پھر خیال ہوا کہ ایسا کیا تو وہ حساب کے پرچے میں اس کانام ضرور لکھے گا اور رقم بھی درج کرے گا۔ اور اتفاق سے یہ پرچہ کسی کے ہاتھ پڑ گیا تو چاہےوہ اسے غور سے نہ بھی دیکھے لیکن ایک ہی نام دو جگہ لکھا ہوگا تو اس کی نظروں سے بچ نہ سکے گا اور اگر اس نے کسی سے اس کا ذکر نہ بھی کیا کہ اسے کس قدر قیمتی راز معلوم ہے تب بھی بات پھیل جائے گی۔


خوش قسمتی سےمیں تھوڑی دیر قبل ہی اپنے ایک دوست کے یہاں سے آیا تھا۔ ویسے کسی دوست کے یہاں جانے یا واپس آنےمیں تو ایسی کوئی خاص بات نہیں لیکن مجھے یہ احساس کرکے تھوڑا سا اطمینان ہوا تھا کہ اسے روپے دینے کے لیے مجھے الماری بھی کھولنا نہیں پڑے گی، کیوں کہ سردی کی وجہ سے میں اوور کوٹ اب بھی پہنے ہوا تھا اور روپے اس کی جیب میں رکھے ہوئے تھے۔ البتہ مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ روپے کتنے ہیں کیوں کہ اپنے دوست کے یہاں جاتے وقت میں نے الماری کھول کر گنے بغیر تھوڑے سے نوٹ جیب میں ڈال لیے تھے۔ ویسے تو اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی لیکن والد مرحوم کی یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے کہ خالی جیب گھر سے نہیں نکلنا چاہیے۔


اتفاق سے اسی وقت چھیتن سامنے سے گزرا تو میں نے اسے آواز دے کر بلایا اور اس کے آنے کے بعدجیب سے روپے نکالے تو سارے نوٹ سو سو ہی کے تھے۔ چنانچہ میں نے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ مجھے پریشانی بس یہ ہے کہ وہ اسی طرح روتی رہی تو آرام کی نیند سونہ سکوں گا، سو روپے کا نوٹ ہی اس کے حوالے کردیا اور غلام گردش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھا آنے کے لیے کہہ دے۔ چھیتن کو دو باتوں پر حیرت تھی۔ ایک تو اس پر کہ میں گھر کے حساب کتاب سے باہر کسی کی مدد کر رہا ہوں اور دوسرے یہ کہ اتنے بہت سے روپوں سے۔ لیکن میں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور خود کو سمجھانے لگا کہ اس خطرناک گھڑی میں نوٹ تڑوانے کی حماقت کرنا بہت سی مصیبتوں کو دعوت دینا ہوگا۔


تھوڑی دیر بعد غلام گردش سے رونے کی آوازیں آنا بند ہوگئیں۔ معلوم نہیں اس کی تکلیف ختم ہوگئی تھی یا وہ ڈاکٹر کے یہاں چلی گئی تھی۔ لیکن یہ سوچے بغیر کہ رونے کی آواز بند ہوجانے کا سبب کیا ہے میں سونے کی تیاری کرنے لگا۔ اسی وقت مجھے ایک بات یا دآئی جو میں بالکل ہی بھولے ہوئے تھا۔ میں نے آدھے کلوتیل کا مہر بند ڈبا اس کے یہاں بھجوادیا ہوتا تو ظاہر ہے تیل استعمال کر چکنے کے بعد اس نےوہ ڈبا پھینک تو نہ دیا ہوتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اسے یہ کہتے ہوئے سب کو دکھاتی کہ حویلی کے چھوٹے صاحب نے اسی میں تیل بھیجا تھا۔


مجھے یہ سوچ کر بہت خوشی ہوئی کہ اب میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا اس قدر عادی ہوچکا ہوں کہ بھولے سے بھی مجھ سے کوئی ایسی غلطی سرزد نہیں ہوتی جس میں کسی قسم کا خطرہ ہو۔ میں نے اطمینان کی سانس لی اور کروٹ بدل کر نیند کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ میرے کمرے پر سکون طاری تھا اور غلام گردش سے بھی کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔