غالب کا اردو کلام



مرزا غالب نے لکھا ہے کہ انہیں شعروشاعری کا شوق اسی زمانہ سے ہوا جب سے کہ وہ ’’لہوولعب‘‘ اور ’’فسق وفجور‘‘ میں پڑ گئے، گویا یہ شوق ان کی شخصیت کے فروغ کی علامتوں میں سے ایک علامت تھی۔ ا ن کے ابتدائی کلام کے نمونے ہمارے سامنے ہوتے اور انہیں وقت تصنیف کے اعتبار سے ترتیب دیا جا سکتا تو ہم اندازہ کر سکتے کہ ان کی جولانی انہیں کن سمتوں میں کتنی دور تک لے گئی اور انہیں اپنی خاص صلاحیتوں اور اصل ذوق کا احساس کس طرح ہوا۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ غالب نے اپنا سارا کلام، ردی کو ردی سمجھ کر بھی پڑا نہیں رہنے دیا اور پہلے انتخاب میں جو کچھ انہوں نے شامل نہیں کیا، وہ ہمیشہ کے لیے ضائع ہو گیا ہے۔ جو رہا سہا امکان غالب کی ادبی اور جمالیاتی نشوونما کا پتہ لگانے کا تھا، وہ غزلوں کو ردیف وار ترتیب دینے کے دستور نے باقی نہ رکھا۔ اب کیا معلوم کہ یہ شعر پندرہ سولہ یا بیس بائیں برس کی عمر میں کہا گیا تھا،عروج نا امیدی چشم زخم چرخ کیا جانےبہار بے خزاں از آہ بے تاثیر ہے پیدااورجب کہا گیا تھا تو غالب آہ بے تاثیر کی روحانی اورفلسفیانہ گہرائیوں سے واقف تھے یا محض الفاظ جوڑنے کی ایک ترکیب ان کی سمجھ میں آئی تھی۔غالب کے اردو کے پہلے اور دوسرے دور کے کلام میں بعض خصوصیتیں مشترک ہیں، جن میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ وہ چند خطوط کھینچ کر چھوڑ دیتے ہیں اور تصویر کو مکمل کرنا پڑھنے یا سننے والے پر چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی خطوط ایسے ہوتے ہیں جن سے ایک سے زیادہ تصویریں بن سکتی ہیں، کبھی ایسے کہ جس طرح بھی جوڑیے اورتوڑیے، کوئی واضح تصویر بنتی ہی نہیں۔ دربار میں رسوخ پیدا ہونے کی وجہ سے غالب نے اپنی انفرادیت ترک نہیں کر دی، حسن کی زلفوں میں عقل کے پیچ ڈالتے رہے، لیکن سامعین کا لحاظ رکھنا بھی ضروری تھا، خاص طور پر بہادرشاہ کی بوڑھی رومانیت کا۔ یہی سامعین کا لحاظ ہے جس نے غالب کو محاورے برتنے اور عام مذاق کے مطابق شعر کہنے پر آمادہ کیا، اسی نے انہیں ہردل عزیز بنا دیا۔ان کے ابتدائی دور کے اعلیٰ کلام میں وہ شان ہے جو پہاڑ کی چوٹی کی چمکتی ہوئی برف میں ہوتی ہے۔ دوسرے دور میں یہ برف پگھلتی، چشمے بن کر نیچے بہتی ہے، صرف چوٹی نہیں بلکہ پورا پہاڑ سامنے آجاتاہے، جنگل نظر آتے ہیں، ہوائیں چلتی ہیں، چشمے گیت گاتے ہوئے وادی میں اترتے ہیں۔ مگر بلندی پھر بلندی ہے، آبشار اور سبزہ زار اس کے نیچے ہی ہوتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی بات تھی کہ غالب پر دوسرے شاعروں کا اثر ہو۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، دنیا کے کسی شاعر نے کسی دوسرے شاعر کی عظمت کا اس طرح اعتراف نہیں کیا ہے، جیسے کہ غالب نے بیدل کا،جوش دل ہے مجھ سے حسن فطرت بیدل نہ پوچھقطرہ سے میخانہ دریائے بے ساحل نہ پوچھبیدل کے طرز پر اردو میں شعر کہنے کے ارادے نے غالب کو مشکل پسند بنا دیا۔ کبھی اس مشکل پسندی کو خیال سے کوئی نسبت نہیں ہوتی ہے۔ مثلاً ایک جگہ ایک عورت کے جھک کر سلام کرنے کی تصویر ان الفاظ میں کھینچتے ہیں، گویا ایک خوبصورت موسل سے خطاطی کی مشق کر رہے ہیں۔سروکار تواضع تاخم گیسورسانیدنبسان شانہ زینت ریز ہے دست سلام اس کااس شروع کے دور میں غالب کا کلام لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتا ہوگا۔ شعر سن کر لطف آنا چاہئے، اس کے بجائے ان کے علم اور عقل کا امتحان ہوتا تھا، لیکن غالب کے کلام کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوتا کہ اپنی عاجزی کا اعتراف کیا جائے، کہا جائے کہ غالب کی زبان میں فارسی زیادہ ہے، اتنی فارسی ہم نہیں سمجھتے، غالب عام فہم نہیں ہیں اور ہماری سمجھ بس اتنی ہے جتنی کہ عام طور پر لوگوں میں ہوتی ہے۔ غالب نکتہ شناسی کا مطالبہ کرتے ہیں، ہماری رسائی صرف ان احساسات تک ہے جو معمولی علم اور تجربہ پیدا کرتا ہے، ہم انہیں کیفیتوں کو جانتے ہیں جو سب کے دلوں پر گزرتی ہیں، غالب کی معنی آفرینی ہمیں معمہ آفرینی معلوم ہوتی ہے اور معمے حل کرنے کی ہم میں قابلیت نہیں۔ اس طرح لوگ سننے اورسمجھنے کی کوشش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہوں گے۔ غالب نے فارسی اور اردو کو ایک نئے ڈھنگ سے ملاکر اپنی الگ اور انوکھی زبان بنائی تھی، جس میں ایجاز کی حیرت انگیز گنجائش تھی اور جو شعر کے میدان کو معنی آفرینی کے لیے وسیع سے وسیع تر کر دیتی تھی۔ یہ معنی آفرینی، یہ دل ودماغ میں نئی کیفیتیں، نئے ہنگامے پیدا کرنے والی طاقت کیا تھی؟ پہلے دور کا ایک شعر مثال کے طور پر لیجئے۔کلفت ربط این و آں غفلت مدعا سمجھشوق کرے جو سرگراں، محمل خواب پاسمجھکہا جاتاہے کہ انسان کو دنیا اور عاقبت کے درمیان ربط اور ہم آہنگی پیدا کرنا اور قائم رکھنا چاہئے۔ لیکن غالب کے نزدیک اس کی کوشش کرنا انسانی زندگی کے مدعا اور مقصد سے غافل ہو جانے کے برابر ہے۔ زندگی کا مدعا یہ ہے کہ انسان شوق کو رہنما بنائے۔ جوش عشق، حسن پرستی، تخیل کی جولانی کو اصل حیات سمجھے، اگر کبھی تھکن معلوم ہو تو یہ نہ خیال کرے کہ اس کا سبب مسلسل سرگرانی ہے کہ جو چلتا رہے اس کا پیر نہیں ہوتا، البتہ جو چلتے چلتے رک جائے، بیٹھ جائے، اس کا پیر سو جائےگا۔ سرگرانی شوق کی وجہ سے نہیں، سستانے کے خیال سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ خیال دل سے نکل جائے تو سرگرانی نہ ہوا کرےگی۔بعض لوگ کہیں گے کہ یہاں غالب نے دین کے ایک بنیادی اصول سے انکار کیا ہے۔ اخلاقی بےلگامی کی دعوت دی ہے۔ بعض مطالبہ کریں گے کہ شوق کی اور اس بےمنزل سفر کی وضاحت کی جائے جو شوق کا نتیجہ ہوتا ہے، بعض اس شعر کو شعر نہ مانیں گے۔ تینوں قسم کے تاثرات کا سبب سمجھ میں آ سکتا ہے۔ جو لوگ دین کو انسان سے اور انسان کو دین سے الگ کرکے منطق کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں، جن لوگوں کا عقیدہ ہے کہ زندگی میں اخلاقی نظم اور ضبط ہونا چاہئے، وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ نظم اور ضبط مقصد نہیں ہے، ذریعہ ہے آگے کی منزلوں تک پہنچنے کا۔ جو لوگ تصورات کی وضاحت چاہتے ہیں انہیں تصورات سے زیادہ وضاحت سے مطلب ہوتا ہے۔جن لوگوں کو اس شعر میں شعریت نظر نہیں آتی وہ شعر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، اپنے جذبات کے لیے ایک محرک چاہتے ہیں۔ طبیعت کو ہلکا کرنا، غم روزگار کو غم عشق کے سہارے سے بھلانا چاہتے ہیں، انہوں نے زندگی کو جیسی کہ وہ ہے تسلیم کر لیا ہے، امکانات پر غور نہیں کرتے، آدمی جس حد تک انسان بن گیا ہے اسے کافی سمجھتے ہیں، اس کے آگے انہیں اور کچھ نظر نہیں آتا۔ غالب نے آزاد انسانیت کی تلاش میں کیا کچھ محسوس اور معلوم کیا، یہ وہ ہمیں نہیں بتاتے۔ شاعر کا منصب رہنمائی کرنا نہیں ہے بلکہ عالم امکانات کی سیر کا ایسا شوق پیدا کرنا کہ آدمی خود بےچین ہوکر نکل کھڑا ہو۔ اسی ابتدائی دور کی ایک غزل ہے جس کے چار شعر کیفیتوں کا ایک سلسلہ پیش کرتے ہیں،مژہ پہلو ے چشم، اے جلوہ ادراک باقی ہےہوا وہ شعلہ داغ اور شوخی خاشاک باقی ہےگداز سعی بینش شست وشوسے نقش خود کامیسراپا شبنم آئیں، یک نگاہ پاک باقی ہےچمن زار تمنا ہو گیا صرف خزاں لیکنبہار نیم رنگ آہ حسرت ناک باقی ہےنہ حیرت چشم ساقی کی نہ صحبت دور ساغرکیمری محفل میں غالب گردش افلاک باقی ہے، 1بظاہر ان اشعار میں یاس وحرماں کی کیفیتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایسا بیان اور شاعروں نے شاید زیادہ صاف اور سلجھی ہوئی زبان میں کیا ہوگا لیکن انہیں متفرق اشعار کے بجائے قطعہ بند سمجھئے تو ان میں ایک مکمل کیفیت کا نقشہ ملتا ہے۔ شاعر کو حسن کامل کا دیدار نصیب ہوا ہے، بجلی سی گری ہے، آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں، نظر جل گئی ہے، بس کچھ پلکیں سلگتی رہ گئی ہیں اور جب شعلہ نہیں رہا تو ان خاشاک کا سلگتے رہنا محض شوخی ہے۔ مگر آنکھ دیکھنے کے لیے بنی تھی، وہ اپنا منصب کیسے چھوڑ دے، وہ دیکھنے کی کوشش میں آنسو بہاتی رہتی ہے اور آخر میں دھلتے دھلتے ایک نگاہ پیدا کر لیتی ہے جس میں شبنم کی سی چمک ہے۔ اسی بات کو دوسری طرح کہئے تو گویا چمن کی شادابی خزاں پر نثار ہو چکی ہے، اس کا نثار ہو جانا ضروری تھا کہ خزاں تو لازمی طور پر آتی ہی ہے اور اب تمنا بھی کیا کر سکتی ہے، سوا اس کے کہ ایک بہار پیدا کرے جس کے رنگ پھیکے ہوں گے اور ویسے ہی بیدم جیسے حسرت ناک آہیں۔ یا ایک اور مثال لیجئے تو کہا جا سکتا ہے کہ ساقی کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھنے اور ایسی صحبتوں میں بیٹھنے کا زمانہ گیا جہاں ساغر کا دور چلتا ہو۔ اب جو کچھ ہے آسمان کی گردش ہے، بے معنی، بے سود۔غالب کو سمجھنے کے لیے اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ شاعری ان کے لیے اثبات خودی کا ذریعہ تھی اور ان کی خودی کا بھی ایک خاص رنگ تھا۔ ان کا دل اپنی جولاں گاہ کے لیے وہ وسعت، وہ شدت، نشاط کی وہ کیفیت چاہتا تھا جس کی مثال گردباد یعنی بگولا ہے، ایسی ہی کیفیت سے ان کی طبیعت کو عقدہ کشائی کی لذت نصیب ہو سکتی تھی،پہن گشتن ہائے دل بزم نشاط گرد بادلذتِ عرض ِکشادِ عقدہ مشکل نہ پوچھبےشک اثبات خودی کی یہی ایک صورت نہیں تھی، لیکن غالب کے کلام میں اس کا عکس کسی نہ کسی اعتبار سے تقریباً تمام دوسری کیفیتوں میں نظر آتا ہے، خاص طور سے ان کی بےچینی، بیزاری، درد، مایوسی، جو انہیں خود وجود سے انکار پر آمادہ کرتی ہے، اس لیے کہ وجود کی پابندیاں انہیں انسانیت کے لیے قیدخانہ معلوم ہوتی ہیں، اسی انسانیت کے لیے جس کے سراغ میں وہ شور محشر بن گئے ہیں، کہتے ہیں،سراغ آوارہ عرض دوعالم شور محشر ہوںپرافشاں ہے غبار آں سوے صحرائے عدم میراپھر اس خیال سے کہ شاید لوگ اس کو ایک بہت بڑا دعوی سمجھیں کہ ان کے لیے آگاہی کا مطلب ذہن کا سیدھی پٹریوں پر چلنا ہے، وہ اپنی بیکسی کا بھی اعتراف کر لیتے ہیں،نہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہیغبار راہ ہوں، بے مدعا ہے پیچ وخم میرامگر اس کا انہیں انتہائی غم بھی ہے،ملی نہ وسعت جولانِ یک جنوں ہم کوعدم کولے گئے دل میں غبار صحرا کادشت، صحرا، برق، زنجیریں، زخم، سب علامتیں ہیں اس جنگ کی جو مادی حقیقت اور انسانیت کے درمیان مسلسل جاری رہتی ہے، جس میں انسانیت برابر شکست کھاتی مگر نئے عزم کے ساتھ پھر میدان میں آتی رہتی ہے۔ شاید یہ سب نہ ہوتا اگر آگہی نہ ہوتی، دل نہ ہوتا،شکوہ وشکر کو ثمر، بیم وامید کا سمجھخانہ آگہی خراب، دل نہ سمجھ بلا سمجھخدایا چشم تا دل درد ہے افسون آگاہینگہ حیرت سواد خواب بے تعبیر بہتر ہےمصیبت میں آدمی خدا کی رحمت میں پناہ لیتا ہے۔ رحمت میں صرف پناہ نہیں ملتی، دل ودماغ کو کشادگی نصیب ہوتی ہے۔ غالب نے کبھی کبھی سیدھے سادے مسلمان کی طرح بات کہی ہے،جان دی دی ہوئی اسی کی تھیحق تویہ ہے کہ حق ادا نہ ہوایا وحدت الوجود کا فلسفہ بیان کیا ہے،نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ تھا تو خدا ہوتاڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا تو میں تو کیا ہوتامقصود ما ز دیر وحرم جز حبیب نیستہرجا کنیم سجدہ بداں آستاں رسدمگر یہ بڑھاپے کا زمانہ تھا۔ ابتدائی دور میں غالب کے لیے سیدھے سادے مسلمان کا عقیدہ ’’عجزتمنا‘‘ تھا، ایک بندگلی جو انسان کے لیے راستہ نہیں بن سکتی تھی،کس بات پہ مغرور ہے اے عجز تمناسامان دعا وحشت و تاثیر دعا ہیچخدا تک صحیح معنوں میں رسائی اسی کی ہو سکتی ہے جو اپنی انسانیت کو بےتکلف کر دے، شکایت کرے، گناہوں کا معترف ہو، بندگی میں دوستی کا لطف پیدا کرے، موقع ملے تو طنز سے بھی پرہیز نہ کرے۔ بندگی میں بے تکلفی کی مثالیں دیکھئے،ہررنگ میں جلااسد فتنہ انتظارپروانہ تجلی شمع ظہور تھاخور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسدسر تا قدم گزارشِ ذوقِ سجود تھاوسعت رحمت حق دیکھ کر بخشا جاوےمجھ سا کافر جوکہ ممنون معاصی نہ ہوااسد سودائے سرسبزی سے ہے تسلیم رنگیں ترکہ کشت خشک اس کا ابر بے پردا خرام اس کااس انتخاب کے شروع میں ایک غزل ہے جس میں خدا اور بندہ آزاد کا تعلق ایسے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس کا جواب مجھے کسی اورزباں میں نہیں ملاہے مگر یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ غالب کا دل جذبہ دینی کی کیفیتوں سے نا آشنا تھا۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے،پئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کابہ خوں غلتیدہ صد رنگ دعوی پارسائی کااے اسد بیجا ہے ناز سجدہ عرض نیازعالم تسلیم میں یہ دعویٰ آرائی عبثخبر نگہ کو نگہ چشم کو عدوجانےوہ جلوہ کر کہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانےناکامی نگاہ ہے برق نظارہ سوزتو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئیتاچندپست ہمتی طبع آرزویارب ملے بلندی دست دعا مجھےالبتہ اسی جذبہ دینی نے مذہبوں کی شکل اختیار کرکے انسانوں میں جو تفریق پیدا کی تھی، اسے وہ حق بجانب ماننے پر تیار نہ تھے اور زاہدوں کی صحبت انہیں کسی حال میں گوارا نہ تھی۔ ان کا فارسی کا ایک شعر ہے،سخن کو تہ مراہم دل بہ تقوے مائل ست امازننگ زاہد افتادم بہ کافر ماجرائیہااپنی انسانیت بھی انہیں بہت عزیز تھی۔ غصے میں وہ کہہ سکتے تھے،خوئے آدم دارم، آدم زادہ امآشکارا دم زعصیاں می زنملیکن انہیں چھیڑا نہ جاتا تو وہ انسان سے کہہ سکتے تھے کہ نغمہ اور نشہ اور ناز کا پرستار بن کررہ، خلق کو پارسائی کرنے دے،نغمہ ہے محو سازرہ، نشہ ہے بے نیاز رہرند تمام نازرہ خلق کو پارسا سمجھیہی انسانیت ہے جو ان کو عشق کی طرف لے جاتی ہے کہ دنیا ایک وحشت کدہ ہے اور وہ روشنی سے محروم رہتی اگر انسان شعلہ عشق کو اپنی زندگی کا سازوسامان نہ بناتا،ہم نے وحشت کدہ بزم جہاں میں جوں شمعشعلہ عشق کو اپنا سروساماں سمجھاعشق تمنا کی شکل اختیار کرتا ہے تو عالم امکاں انسان کے لیے تنگ ہو جاتا ہے،ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یاربہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایاحسرت بن جاتا ہے تو انجام کی پروا نہیں کرتا۔ اس کی خودرائی کی انتہا نہیں رہتی،ہزار قافلہ آرزو بیاباں مرگہنوز محمل حسرت بدوش خود رائییہ مسئلہ بحث طلب ہے کہ ایسا عشق صرف مجازی ہو سکتا ہے یا اس میں حقیقی عشق بن جانے کا بھی مادہ ہے۔ غالباً اس شعر کا کہ،میں دور گردعرض رسوم نیاز ہوںدشمن سمجھ ولے نگہ آشنا نہ مانگمطلب یہ تھا کہ میں رسوم نیاز ادا کرنے کے چکر میں پڑ گیا ہوں، اس سے زیادہ کی صلاحیت مجھ میں نہیں ہے، میں نگہ آشنا پیدا نہیں کر سکتا۔ اب تجھے اختیار ہے کہ مجھے دشمن سمجھ لے۔ غالب کو اپنی انسانیت کی وسعتیں ناپنے سے فرصت نہ تھی،یک بار امتحان ہوس بھی ضرور ہےاے جوش عشق بادہ مرد آزما مجھےشاعر کا مجازی عشق چاہے وہ انسانیت کی وادی خیال میں مستانہ وار گھوم رہا ہو، ایک مخاطب، ایک معشوق کے بغیر بےچین رہتا ہے،تمثال جلوہ عرض کر اے حسن کب تلکآئینہ خیال کو دیکھا کرے کوئیغالب کے دوسرے دور کے مجازی معشوق کی ہستی جانی پہچانی ہے۔ اس کے ایک طرف ’’غیر‘‘ یا ’’رقیب‘‘ دوسری طرف آئینہ ہے، اس کے دروازے پر دربان بیٹھا رہتا ہے، اسے خط لکھے جاتے ہیں، چاہے مطلب کچھ نہ ہو۔ اس کے ناز وانداز کے بہت سے خاکے مطبوعہ دیوان میں ملتے ہیں۔ یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ پہلے اور دوسرے دور کے مجازی عشق اور معشوق میں کتنا اور کیسا فرق ہے۔ تغافل کی کیفیت پر پہلے دور کا ایک شعر ہے،ہے کسوت عروج تغافل کمال حسنچشم سیہ بمرگ نگہ سوگوار تردوسرے دور کا بہت معروف شعر ہے،بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کیوہ اک نگہ کہ بظاہر نگاہ سے کم ہےیہاں ایک جگہ تخیل کی جولانی، دوسری جگہ اس کی پختگی بحر کے انتخاب اور الفاظ کے ترنم سے ظاہر ہو جاتی ہے۔ پہلے دور کی اسی غزل کا ایک اور شعر ہے جو جوانی کے جوش کو اور زیادہ نمایاں کرتا ہے،قاتل بعزم ناز و ول از زخم درگدازشمشیر آبدار نگہ آبدار تراور شاعر اپنے بارے میں کہتا بھی ہے،سیماب بےقرار، اسد بےقرارترپہلے دور کی ایک غزل ہے جس میں شاید بلا ارادہ ملاقات اور گفتگو کا ایک نقشہ پیش کر دیا گیا ہے۔ پہلے شاعر اپنے آپ سے کہتا ہے کہ آہ وفریاد سے کچھ حاصل نہ ہوگا،اثرکمندی فریاد نارسا معلومغبارِنالہ کمیں گاہِ مدعا معلومپھر ملاقات ہوتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ دراصل آپ کا حسن میرے عشق کی جلوہ ریزی ہے۔ جتنا میرے عشق کا حوصلہ، اتنا آپ کا حسن۔ آئینے کو نہ دیکھئے، اس میں کیا دھرا ہے۔ پھر ذرا اور شوخ ہوکر کہتا ہے کہ آپ کے ناز کا سارا جادو لباس کی تنگی میں ہے،بقدر حوصلہ عشق جلوہ ریزی ہےوگرنہ خانہ آئینہ کی فضا معلومبہار درگرد غنچہ شہرجولاں ہےطلسم نازبجز تنگی قبا معلومپھرایک قہر آلود نگاہ کے جواب میں کہتا ہے کہ،تکلف آئینہ دو جہاں مدارا ہےسراغ یک نگہ قہرآشنا معلومرخصت ہوتے ہوئے کہا جاتا ہے،اسد فریفتہ انتخاب طرزجفاو گرنہ دلبری وعدہ وفا معلومکلام کے آخری انتخاب میں غالب نے یہ شعر چھوڑ دیے، منجملہ ان کے یہ شعر بھی،طلسم خاک کمیں گاہ یک جہاں سودابمرگ تکیہ آسائش فنا معلومغالب کا ابتدائی کلام مشکل سمجھا جاتا ہے اور اس کے مشکل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ ان کو اس رستے پر چلنا گوارا نہیں تھا جس پر سب چلتے تھے اورسب سے الگ بات کہنے کی کوشش میں وہ ایسے نقش بنانے میں الجھ جاتے جن کو الفاظ کے قلم سے بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ ابتدائی کلام کے اس مجموعے میں جسے جناب عرشی صاحب نے اپنے ایڈیشن میں ’’گنجینہ معنی‘‘ کا عنوان دیا ہے، بہت سے اشعار ایسے ہیں جو صرف مشکل ہیں اور معنی کے اعتبار سے قابل قدر نہیں ہیں لیکن اس میں ایسے مطالب بھی ہیں جو شاید آسان، عام فہم زبان میں اداہی نہیں ہو سکتے تھے،دود شمع کشتہ گل بزم سامانی عبثیک شبہ آشفتہ ناز سنبلستانی عبثہے ہوس محمل بدوش شوخی ساقی مستنشہ مے کے تصور میں نگہبانی عبثجب کہ نقش مدعا ہووے نہ جز موج سرابوادی حسرت میں پھر آشفتہ جولانی عبثبزم مے نوشی تصویر کیجئے۔ شاعرکا دل بجھا بجھا سا ہے، گویا ایک پھول تھا جس کے رنگ شمع کی طرح سے روشن تھے، مایوسیوں اورغموں نے اس کے شعلے کو گل کر دیا ہے۔ اب شاعر کے دل میں اتنی جان نہیں کہ محفل میں جان ڈال سکے، پھر اس سے کیا فائدہ کہ وہ رات بھرکے لیے بکھرے ہوئے بالوں کے خیال میں دیوانہ ہو جائے۔ مگربزم ہے، ساقی ہے، ساقی کی مست آنکھوں کی شوخی نے شاعر کی ہوس کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیا ہے اور یہ خیال کہ ساقی اور اس کی شوخی صرف نشے کا ایک تصور ہے، ہوس اور شوخی کی نگرانی نہ کر سکےگا۔ لیکن نگرانی نہ کر سکا تو اس سے کیا حاصل ہوگا؟ جب مطلب کا پورا ہونا بھی ایک دھوکہ ہے، سراب کی ایک موج، تو پھر حسرت کی وادی میں بہکتے پھرنا بیکار ہے۔اگر ہم یہ نہ سمجھیں کہ شاعری صرف خیال آرائی ہے، بلکہ غالب کی عادت اور اس زمانے کے حالات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ تینوں شعر حقیقی تاثرات پیش کرتے ہیں، جنہیں بیان کرنے کے لیے بہت مناسب انداز اور استعارے استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً جس کسی نے کھلتے ہوئے گلاب کے پھول دیکھے ہیں اور پھر انہیں مر جھاتے، ان کے شعلوں کو بجھتے اور ان کی انجمن کو بےرونق ہوتے ہوئے دیکھا ہے اسے ’’دود شمع کشتہ گل‘‘ ایک مشکل ترکیب نہیں بلکہ ایک بہت ہی لطیف تشبیہ معلوم ہوگی۔غالب کا سب سے اعلی شاعرانہ استعارہ، جوان کے تخیل کی تخلیق اور ان کے کلام کا خالق بھی ہے، انسان ہے، اور وہ بیشتر اپنی انسانیت کی گوناگوں کیفیتوں میں محو نظر آتے ہیں۔ انسان وہ مقام ہے جہاں سے ان کے تصورات اور ان کی آرزوؤں کے قافلے روانہ ہوتے ہیں اور ساری بادیہ پیمائی اور’’دریاکشی‘‘ کے بعدپھر اسی مقام پر واپس آ جاتے ہیں۔ انسان باغ ہے اور پھولوں کا ہجوم ہے، دشت اور صحرا ہے، معشوق کے لیے تڑپتا ہوا عاشق ہے، وجود اور عدم کی بازی کا مہرہ ہے، آگہی کا شکار ہے، باغی ہے، تقدیر کی چکی میں پسا ہوا دانہ ہے، ایک تماشائی ہے جوا لگ کھڑا دنیا کے کاروبار کو دیکھتا ہے، کبھی اس پر طنز کرتا ہے کبھی چٹکیوں میں اڑاتا ہے۔ انسان گہنگاری کا ایک حسین مجسمہ ہے جو رحمت کے دل کو موہ لیتا ہے، ایک دیوانہ جو کسی وقت بھی قیامت برپا کر سکتا ہے۔بےشک غالب نے انسان کو دریافت نہیں کیا۔ شاعر کا منصب یہ ہوتا ہے کہ انسان کی نظر میں وہ قوت پیدا کرے جس سے وہ اپنے آپ کو اور اپنی دنیا کو ہر پہلو سے دیکھ سکے۔ غالب نے اس منصب کا حق ادا کیا۔ شوق کو جو انسانیت کا جوہر ہے، عالم وجود کی سیر کرنا سکھایا اوراسے ہمت دلائی کہ مسکراکر یا خفا ہوکر زندگی کی ایک ایسی تمام شرطوں کو نامنظور کرے جن سے اس کی آزادی محدود ہوتی ہویا اس کے مرتبہ انسانی میں کمی پیدا ہوتی ہو۔گدائے طاقت تقریر ہے زباں تجھ سےکہ خامشی کو ہے پیرایہ بیاں تجھ سےفسردگی میں فریاد بیدلاں تجھ سےچراغ صبح وگلِ موسمِ خزاں تجھ سےبہارِحیرتِ نظارہ سخت جانی ہےحناے پاے اجل خون کشتگاں تجھ سےپری بہ شیشہ وعکس رخ اندر آئینہنگاہ حیرت مشاطہ خوں فشاں تجھ سےطراوت سحر ایجادی اثر یکسوبہار نالہ و رنگینی فغاں تجھ سےچمن چمن گلِ آئینہ درکنارِ ہوسامید محو تماشاے گلستاں تجھ سےنیاز پردہ اظہارِ خودپرستی ہےجبین سجدہ فشاں تجھ سے، آستاں تجھ سےبہانہ جوئی رحمت کمیں گر تقریبوفائے حوصلہ ورنج امتحاں تجھ سےاسدطلسم قفس میں رہے قیامت ہےخرام تجھ سے صبا تجھ سے گلستاں تجھ سےجذبہ بےاختیار شوق د یکھا چاہئےسینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کاجنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیاسویدا تا بلب زنجیری دودسپند آیاتغافل بدگمانی بلکہ میری سخت جانی سےنگاہ بے حجاب ناز کو بیم گزند آیاجراحت تحفہ الماس ارمغاں داغ جگرہدیہمبارک باد اسد، غمخوار جان درد مند آیاپوچھا تھا اگرچہ یار نے احوال دل مگرکس کو دماغ منت گفت و شنود تھاخور شبنم آشنا نہ ہوا ورنہ میں اسدسرتا قدم گزارش ذوق سجود تھاہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب؟ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایاعشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایادرد کی دوا پائی درد بے دوا پایاسادگی وپرکاری بیخوی و ہشیاریحسن کو تغافل میں جرأت آزما پایاغنچہ پھر لگا کھلنے آج ہم نے اپنادلخوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایاشوق ہر رنگ، رقیب سروساماں نکلاقیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلابوئے گل نالہ دل دود چراغ محفلجو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلاساغر جلوہ سرشار ہے ہر ذرہ خاکشوق دیدار بلا آئینہ ساماں نکلاشور رسوائی دل دیکھ کہ یک نالہ شوقلاکھ پردے میں چھپا پھروہی عریاں نکلامیں بھی معذور جنوں ہوں اسد اے خانہ خرابپیشوا لینے مجھے گھرسے بیاباں نکلادہر میں نقش وفا وجہ تسلی نہ ہواہے وہ لفظ کہ شرمندہ معنی نہ ہوامیں نے چاہا تھا کہ اندوہ وفا سے چھوٹوںوہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوادل گزرگاہ خیال مے و ساغر ہی سہیگر نفس جادہ سرمنزل تقوی نہ ہواکس سے محرومی قسمت کی شکایت کیجےہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں سو وہ بھی نہ ہواوسعت رحمت حق دیکھ کہ بخشا جاوےمجھ سا کافر کہ جو ممنون معاصی نہ ہوادیدہ تا دل ہے یک آئینہ چراغاں، کس نےخلوت ناز پہ پیرایہ محفل باندھا؟ناامیدی نے بہ تقریب مضامین خمارکوچہ موج کو خمیازہ ساحل باندھامطر ب دل نے مرے تار نفس سے غالبساز پر رشتہ پئے نغمہ بیدل باندھاپئے نذر کرم تحفہ ہے شرم نارسائی کابخوں غلتیدہ صد رنگ دعویٰ پارسائی کادریغ اے ناتوانی ورنہ ہم ضبط آشنایاں نےطلسم رنگ میں باندھا تھا عہد استوار اپنااگر آسودگی ہے مدعائے رنج بیتابینثار گردش پیمانہ مے روزگار اپناگلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگی جاکاگہر میں محو ہوا اضطراب دریا کاسراغ آوارہ عرض دوعالم شور محشرہوںپرافشاں ہے غبار، آنسوئے صحرائے عدم میرانہ ہو وحشت کش درس سراب سطر آگاہیغبارراہ ہوں بے مدعا ہے پیچ وخم میراسراپا رہنِ عشق و ناگزیر الفت ہستیعبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کابقدر ظرف ہے ساقی خمار تشنہ کامی بھیجو تو دریائے مے ہے تو میں خمیازہ ہوں ساحل کالب خشک درتشنگی مردگاں کازیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کاہمہ ناامیدی ہمہ بدگمانیمیں دل ہوں فریب وفا خوردگاں کاشگفتن کمیں گاہ تقریب جوئیتصور ہوں بے موجب آزردگاں کاغریب ستم دیدہ بازگشتنسخن ہوں سخن برلب آوردگاں کاسراپا یک آئینہ دارشکستنارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کابصورت تکلف بمعنی تاسفاسد میں تبسم ہوں پژمردگاں کالطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتیچمن زنگار ہے آئینہ باد بہاری کاحریف جو شش دریا نہیں خودداری ساحلجہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کاہم نے وحشت کدہ بزم جہاں میں جوں شمعشعلہ عشق کو اپنا سروساماں سمجھاملی نہ وسعت جولان یک جنوں ہم کوعدم کولے گئے دل میں غبار صحرا کادیکھی وفائے فرصت رنج و نشاط دہرخمیازہ یک درازی عمر خمار تھاذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہےگردش مجنوں بہ چشمک ہاے لیلا آشناشوق، ہےساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجزذرہ صحرا دستگاہ وقطرہ دریا آشنامیں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دل وحشی کہ ہےعافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشناسراسر تاختن کوشَش جہت یک عرصہ جولاں تھاہوا واماندگی سے رہرواں کی فرق منزل کابس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہوناآدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہوناگریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کیدر ودیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہوناعشرت قتل گہہ اہل تمنا مت پوچھعید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہوناہر رنگ میں جلا اسد فتنہ انتظارپروانہ تجلی شمع ظہور تھاہرگام آبلے سے ہے دل درتہ قدمکیا بیم اہل درد کو سختی راہ کارحمت اگر قبول کرے کیا بعید ہےشرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کادل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیاآتش خاموش کے مانند گویا جل گیادل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیںآگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیاعرض کیجے جو ہر اندیشہ کی گرمی کہاں؟کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیادل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہاراس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیامیں ہوں اور افسردگی کی آرزو غالب کہ دلدیکھ کر طرز تپاک اہل دنیا جل گیاربط یک شیرازہ وحشت ہیں اجزائے بہارسبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنادم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوزپھر ترا وقت سفر یاد آیاکوئی ویرانی سی ویرانی ہےدشت کو دیکھ کے گھر یاد آیامیں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدسنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیاتوفیق بہ اندازہ ہمت ہے ازل سےآنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہواتھاجب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالممیں معتقد فتنہ محشر نہ ہوا تھادریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشکمیرا سر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھاعرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہاجس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہاجاتا ہوں داغ حسرت ہستی لیے ہوئےہوں شمع کشتہ درخور محفل نہیں رہاوا کر دیے ہیں شوق نے بند نقاب حسنغیرازنگاہ اب کوئی حائل نہیں رہاگویا میں رہا رہین ستم ہائے روزگارلیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہاحاصل الفت نہ دیکھا جز شکست آرزودل بدل پیوستہ گویا یک لب افسوس تھاکم جانتے تھے ہم بھی غم عشق کو پرابدیکھا تو کم ہوئے پہ غم روزگار تھااحباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکےزنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھامحرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کایاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کارنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہےیہ وقت ہے شگفتن گلہائے ناز کادوست غمخواری میں میری سعی فرماویں گے کیا؟زخم کے بھرنے تلک، ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا؟بےنیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلکہم کہیں گے حال دل اورآپ فرماویں گے کیا؟حضرت ناصح گر آویں دیدہ ودل فرش راہکوئی مجھ کو یہ توسمجھا دو کہ سمجھاویں گے کیا؟گر کیا ناصح نے ہم کو قید اچھا یوں سہییہ جنون عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا؟خانہ زاد زلف ہیں زنجیر سے بھاگیں گے کیوںہیں گرفتار وفا زنداں سے گھبراویں گے کیا؟ہے اب اس معمورے میں قحط غم الفت اسدہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہے کھاویں گے کیا؟عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانادرد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانااب جفا سے بھی محروم ہیں ہم، اللہ اللہاس قدر دشمن ارباب وفا ہو جاناہوس کو ہے نشاط کار کیا کیاٍنہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا؟نگاہ بے مجابا چاہتا ہوںتغافل ہائے تمکیں آزما کیا؟نفس موج محیط بے خودی ہےتغافل ہائے ساقی کا گلا کیا؟دماغ عطر پیراہن نہیں ہےغم آوارگی ہائے صبا کیا؟سن اے غارت گر جنس وفا سنشکست قیمت دل کی صدا کیا؟یہ قاتل وعدہ صبر آزما کیوں؟یہ کافر فتنہ طاقت ربا کیا؟بلائے جاں ہے غالب اس کی ہرباتعبارت کیا اشارت کیا ادا کیااسد سودای سرسبزی سے ہے تسلیم رنگیں ترکہ کشت خشک اس کا ابر بے پروا خرام اس کامیں اور بزم مے سے یوں تشنہ کام آؤںگر میں نے کی تھی توبہ ساقی کو کیا ہوا تھا؟درماندگی میں غالب کچھ بن پڑے تو جانوںجب رشتہ بے گرہ تھا ناخن گرہ کشا تھاگھرہ مارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتابحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتاتم سے بیجا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہاس میں کچھ شایبہ خوبی تقدیر بھی تھاقید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یادہاں کچھ ایک رنج گر اں باری زنجیر بھی تھابجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا؟بات کرتے کہ میں لب تشنہ تقریر بھی تھاریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبکہتے ہیں ’’اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا‘‘ترے وعدے پرجیے ہم تو یہ جان جھوٹ جاناکہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتاکوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کویہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتایہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصحکوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتارگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتاجسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتاغم اگرچہ جاں گسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہےغم عشق گرنہ ہوتا غم روزگار ہوتاکہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟ شب غم بری بلا ہےمجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتاہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریانہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتایہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبتجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتانہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتاڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتاہوئی مدت کہ غالب مر گیا پر یاد آتا ہےوہ ہر یک بات پر کہنا کہ ’’یوں ہوتا تو کیا ہوتا‘‘درد منت کش دوا نہ ہوامیں نہ اچھا ہوا برا نہ ہواہے خبر گرم ان کے آنے کیآج ہی گھرمیں بوریا نہ ہواکیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟بندگی میں مرا بھلا نہ ہواجان دی دی ہوئی اسی کی تھیحق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوابندگی میں بھی وہ آزاد و خود بیں ہیں کہ ہمالٹے پھر آئے، در کعبہ اگر وا نہ ہواسینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیاخاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہواقطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کلکھیل لڑکوں کا ہوا، دیدہ بینا نہ ہواتھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزےدیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہواعروج ناامیدی چشم زخم چرخ کیا جانےبہار بے خزاں از آہ بے تاثیر ہے پیدادود شمع کشتہ گل بزم سامانی عبثیک شبہ آشفتہ ناز سنبلستانی عبثہے ہوس محمل بدوش شوخی ساقی مستنشہ مے کے تصور میں نگہبانی عبثجب کہ نقش مدعا ہووے نہ جز موج سرابوادی حسرت میں پھر آشفتہ جولانی عبثمحمل پیمانہ فرصت ہے بردوش حبابدعوی دریا کشی و نشہ پیمائی عبثیک نگاہ گرم ہے جوں شمع سرتا پاگدازبہر ازخود رفتگاں رنج خود آرائی عبثاے اسد بے جا ہے ناز سجدہ عرض نیازعالم تسلیم میں یہ دعویٰ آرائی عبثہوں داغ نیم رنگی شام وصال یارنور چراغ بزم سے جوش سحر ہے آجتاصبح ہے بمنزل مقصد رسیدنیدود چراغ خانہ غبار سفر ہے آجآتاہے ایک پارہ دل ہر فغاں کے ساتھتار نفس کمند شکار اثر ہے آجسیرملک حسن کو میخانہ ہانذر خمارچشم مست یار سے ہے گردن مینا پہ باجقطع سفر ہستی و آرام فنا ہیچرفتار نہیں بیشتر از لغزش پا ہیچحیرت ہمہ اسرار، پہ مجبور خموشیہستی نہیں جز بستی پیمان وفا ہیچتمثال گداز آئینہ ہے عبرت بینشنظارہ تحیر، چمنستان بقا ہیچگلزار دمیدن شررستان رمیدنفرصت تپش وحوصلہ نشوونما ہیچآہنگ عدم نالہ بہ کہسار گرد ہےہستی میں نہیں شوخی ایجاد صدا ہیچکس بات پہ مغرور ہے اے عجز تمنا؟سامان دعا وحشت وتاثیر دعا ہیچمنصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہاہوئی معزولی انداز و ادا میرے بعدشمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہےشعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعددر خور عرض نہیں جوہر بیداد کو، جانگہ ناز ہے سرمہ سے خفا میرے بعدہے جنوں اہل جنوں کے لیے آغوش وداعچاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعدکون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق؟ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعدہلاک بے خبری نغمہ وجود وعدمجہاں واہل جہاں سے جہاں جہاں فریاد!جواب سنگدلی ہائے دشمناں ہمتزدست شیشہ دلی ہائے دوستاں فریادہے دلبری کمیں گر ایجاد یک نگاہکاربہانہ جوئی چشم حیا بلندثابت ہوا ہے گردن مینا پہ خون خلقلرزرے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کربک جاتے ہیں ہم آپ متاع سخن کے ساتھلیکن عیار طبع خریدار دیکھ کران آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میںجی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کرگرنی تھی ہم پہ برق تجلی نہ طور پردیتے ہیں بادہ، ظرفِ قدح خوار دیکھ کرمقصد ہے ناز وغمزہ ولے گفتگو میں کامچلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیرہرچند ہو مشاہدہ حق کی گفتگوبنتی ہے بادہ و ساغر کہے بغیرہے بس کہ ہر ایک ان کے اشارے میں نشاں اورکرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اوریارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری باتدے اوردل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اورہرچند سبک دست ہوئے بت شکنی میںہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اورپاتے نہیں جب راہ توچڑھ جاتے ہیں نالےرکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اوربینش بسعی ضبط جنوں نو بہارتردل درگداز نالہ بکاہ آبیار ترقاتل بعزم ناز و دل از زخم درگدازشمشیر آبدار ونگاہ آبدار ترہے کسوت عروج تغافل کمال حسنچشم سیہ بمرگ نگہ سوگوارتراے چرخ خاک برسر تعمیر کائناتلیکن بنائے عہد وفا استوارترآئینہ داغ حیرت وحیرت شکنج یاسسیماب بے قرار و اسد بےقرارترحریف مطلب مشکل نہیں فسون نیازدعا قبول ہو یارب کہ عمر خضر درازنہ ہوبہ ہرزہ بیاباں نورد وہم وجودہنوز تیرے تصور میں ہے نشیب وفرازنہ گل نغمہ ہوں نہ پردہ سازمیں ہوں اپنی شکست کی آوازتو اور آرائش خم کاکلمیں اور اندیشہ ہائے دور درازلاف تمکیں فریب سادہ دلیہم ہیں اور راز ہائے سینہ گدازہوں گرفتار الفت صیادورنہ باقی ہے طاقت پروازاسداللہ خاں تمام ہوااے دریغا وہ رند شاہد بازفریب صنعت ایجاد کا تماشا دیکھنگاہ عکس فروش و خیال آئینہ سازہنوز اے اثردیدہ ننگ رسوائینگاہ فتنہ خرام و در دوعالم بازہجوم فکر سے دل مثل موج لرزے ہےکہ شیشہ نازک وصہبائے آبگینہ گدازاسد سے ترک وفا کا گماں وہ معنی ہےکہ کھینچئے پر طائر سے صورت پروازآہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تککون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک؟دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگدیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تکعاشقی صبر طلب اور تمنا بے تابدل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تکہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکنخاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تکپرتورخور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیممیں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تکیک نظر بیش نہیں، فرصت ہستی غافلگرمی بزم ہے اک رقص شرر ہونے تکغم ہستی کا اسد کس سے ہو جزمرگ علاجشمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تکگر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگیعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگآتا ہے داغ حسرت دل کا شمار یادمجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگمیں دور گرد عرض رسوم نیاز ہوںدشمن سمجھ ولے نگہ آشنا نہ مانگغم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفسبرق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہماثرکمندی فریاد نارسا معلومغبار نالہ کمیں گاہ مدعا معلومبقدر حوصلہ عشق جلوہ ریزی ہےو گرنہ خانہ آئینہ کی فضا معلومبہار درگرد غنچہ شہر جولاں ہےطلسم ناز بجز تنگی قبا معلومطلسم خاک کمیں گاہ یک جہاں سودابمرگ تکیہ آسائش فنا معلومتکلف آئینہ دوجہاں مدارا ہےسراغ یک نگہ قہر آشنا معلوماسد فریفتہ انتخاب طرز جفاوگرنہ دلبری وعدہ وفا معلومبنالہ حاصل دلبستگی فراہم کرمتاع خانہ زنجیر جز صدا معلوماز آنجا کہ حسرت کش یار ہیں ہمرقیب تمنائے دیدار ہیں ہمرسیدن گل باغ واماندگی ہےعبث محفل آرائے رفتار ہیں ہمنفس ہو نہ معزول شعلہ درو دنکہ ضبط تپش سے شررکار ہیں ہمتماشائے گلشن تمنائے چیدنبہار آفرینا گنہگار ہیں ہمنہ ذوق گریباں نہ پروائے داماںنگہ آشنائے گل و خار ہیں ہماسد شکوہ کفرو دعا ناسپاسیہجوم تمناسے ناچار ہیں ہمغنچہ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوںبوسے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوںپرسش طرز دلبری کیجئے کیا کہ بن کہےاس کے ہر ایک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یوںبزم میں اس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے؟اس کی تو خامشی میں بھی ہے یہی مدعا کہ یوںمیں نے کہا کہ بزم ناز چاہئے غیر سے تہیسن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوںمجھ سے کہا جو یار نے ’’جاتے ہیں ہوش کس طرح؟‘‘ دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوںکب مجھے کوئے غیر میں رہنے کی وضع یاد تھی؟آئینہ داربن گئی حیرت نقش پا کہ یوںجو یہ کہے ریختہ کیونکے ہو رشک فارسی؟گفتہ غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ یوںاس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا؟لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیںہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دنورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مستی ایک دنغرہ اوج بنائے عالم امکاں نہ ہواس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دنقرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاںرنگ لاوےگی ہماری فاقہ مستی ایک دننغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیےبے صدا ہو جائےگا یہ ساز ہستی ایک دنتماشا کہ اے محو آئینہ داریتجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیںبناکر فقیروں کا ہم بھیس غالبتماشائے اہل کرم دیکھتے ہیںزمانہ سخت کم آزار ہے بجان اسدوگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیںجب کرم رخصتِ بے باکی و گستاخی دےکوئی تقصیر بجز خجلت تقصیر نہیںتھی وہ اک شخص کے تصور سےاب وہ رعنائی خیال کہاں؟ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہسوائے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیںرونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سےانجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیںکم نہیں وہ بھی خرابی میں پہ وسعت معلومدشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیںکرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبتم کو بے مہری یاران وطن یاد نہیںآج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سےکہنے جاتے توہیں پر دیکھئے کیا کہتے ہیںاگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہوجو مے ونغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیںہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجودقبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیںکس منہ سے شکر کیجیے اس لطف خاص کا؟پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیںملتی ہے خوئے یار سے نار التہاب میںکافر ہوں گرنہ ملتی ہو راحت عذاب میںکب سے ہوں کیا بتاؤں جہان خراب میںشب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میںتا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھرآنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میںلاکھوں لگاؤ ایک چرانا نگاہ کالاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میںغالب چھٹی شراب پراب بھی کبھی کبھیپیتا ہوں روز ابروشب ماہتاب میںکل کے لیے کر آج نہ خست شراب میںیہ سوئے ظن ہے ساقی کوثر کے باب میںہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسندگستاخی فرشتہ ہماری جناب میںرو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمےنے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میںاصل شہود و شاہدومشہود ایک ہےحیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میںہے مشتمل نمود صور پر وجود بحریاں کیاں دھرا ہے قطرہ و موج وحباب میںشرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہیہیں کتنے بے حجاب کہ یوں ہیں حجاب میںہے غیب غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہودہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میںچلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک تیز رو کے ساتھپہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میںکیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل؟انسان ہوں پیالہ وساغر نہیں ہوں میںیارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میںدونوں جہان دے کے وہ سمجھے کہ خوش رہایاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریںتھک تھک کے ہرمقام پہ دوچار رہ گئےتیرا پتا نہ پائیں تونا چار کیا کریںکیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہل بزم؟ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریںسب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہو گئیںخاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیںیاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاںلیکن اب نقش ونگار طاق نسیاں ہو گئیںنیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیںتیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیںجانفزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیاسب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیںہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسومملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیںرنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنجمشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیںدیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستا ں نہیںبیٹھے ہیں رہ گذر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوںجب وہ جمال دل فروز صورت مہر نیم روزآپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوںقید حیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیںموت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوںہاں وہ نہیں خدا پرست جا ؤ وہ بےوفا سہیجس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوںغالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیںروئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوںگل غنچگی میں غرقہ دریائے رنگ ہےاے آ گہی فریب تماشا کہاں نہیں؟دیر وحرم آئینہ تکرار تمناواماندگی شوق تراشے ہے پناہیںمیں چشم وا کشادہ و گلشن نظر فریبلیکن عبث کہ شبنم خورشید دیدہ ہوںہوں گرمی نشاط تصور سے نغمہ سنجمیں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوںپانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوںفتادگی میں قدم استوار رکھتے ہیںبرنگ جادہ سر کوئے یار رکھتے ہیںطلسم مستی دل آں سوے ہجوم سرشکہم ایک میکدہ دریا کے پار رکھتے ہیںنگاہ دیدہ نقش قدم ہے جادہ راہگزشتگاں اثرِ انتظار رکھتے ہیںاسد حیرت کش یک داغ مشک اندو دہے یاربلباس شمع پر عطر شب دیجور ملتے ہیںہوئی ہیں آب، شرم کوشش بیجا سے تدبیریںعرق ریز تپش ہیں موج کی مانند زنجیریںبےدماغی حیلہ جوئے ترک تنہائی نہیںورنہ کیا موج نفس زنجیر رسوائی نہیں؟کس کو دوں یارب حساب سوز ناکی ہائے دلآمد ورفت نفس جز شعلہ پیمائی نہیںہے آدمی بجائے خود اک محشر خیالہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہورہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہوہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہوبے درودیوار سا اک گھر بنایا چاہئےکوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہوپڑیے گر بیمار توکوئی نہ ہو تیمار داراور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہوجب میکدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قیدمسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہوسنتے ہیں جو بہشت کی تعریف سب درستلیکن خدا کرے وہ تری جلوہ گاہ ہوگئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہوکہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیونکر ہو؟ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجے؟حیا ہے اور یہی گومگو، تو کیونکر ہو؟تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کابتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیونکر ہو؟الجھے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہجو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیونکر ہو؟وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہےمرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کونہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا؟رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کوکسی کو دے کے دل کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو؟نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو؟وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں؟سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو؟کیا غمخوار نے رسوا لگے آگ اس محبت کو!نہ لاوے تاب جو غم کی وہ میرا رازداں کیوں ہو؟وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہراتو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہےہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیو ں ہو؟نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو؟جزدل سراغ درد بدل خفتگاں نہ پوچھآئینہ عرض کر خط و خال بیاں نہ پوچھہندوستان سایہ گل پاے تخت تھاجاہ وجلال عہد وصال بتاں نہ پوچھپرواز یک تب غم تسخیر نالہ ہےگرمی نبض خار وخس آشیاں نہ پوچھتو مشق ناز کر دل پروا نہ ہے بہاربیتابی تجلی آتش بجاں نہ پوچھغفلت متاع کفہ میزان عدل ہےیارب حساب سختی خواب گراں نہ پوچھہر داغ تازہ یک دل داغ انتظار ہےعرض فضاے سینہ درد امتحاں نہ پوچھکہتا تھا کل وہ محرم راز اپنے سے کہ آہدرد جدائی اسد اللہ خاں نہ پوچھہے سبزہ زار ہر درودیوار غم کدہجس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھناچار بےکسی کی بھی حسرت اٹھائیےدشواری رہ وستم ہمرہاں نہ پوچھجوش دل ہے، مجھ سے حسن فطرت بیدل نہ پوچھقطرے سے میخانہ دریائے بے ساحل نہ پوچھپہن گشتن ہائے دل بزم نشاط گردبادلذت عرض کشاد عقدہ مشکل نہ پوچھآبلہ پیمانہ اندازہ تشویش تھااے دماغ نارسا خم خانہ منزل نہ پوچھنے صبا بال پری نے شعلہ سامان جنوںشمع سے جز عرض افسون گداز دل نہ پوچھیک مژہ برہم زدن حشر دوعالم فتنہ ہےیاں سراغ عافیت جزدیدہ بسمل نہ پوچھبزم ہے یک پنبہ مینا گداز ربط سےعیش کر غافل حجاب نشہ محفل نہ پوچھتاتخلص جامہ شنگرفی ارزانی اسدشاعری جز ساز درویشی نہیں، حاصل نہ پوچھشکوہ وشکر کوثمر بیم وامید کا سمجھخانہ آگہی خراب دل نہ سمجھ بلا سمجھشوق عناں گسل اگر درس جنوں ہوس کرےجادہ سیر دوجہاں یک مژہ خواب پا سمجھاے بسرابِ حسن خلق تشنہ سعی امتحاںشوق کو منفعل نہ کر ناز کو التجا سمجھشوخی حسن وعشق ہے آئینہ دار ہم دگرخار کو بے نیام جان ہم کو برہنہ پا سمجھکلفت ربط این وآں غفلت مدعا سمجھشوق کرے جو سرگراں محمل خواب پا سمجھنغمہ ہے محو ساز رہ نشہ ہے بےنیاز رہزند تمام ناز رہ خلق کو پارسا سمجھنے سروبرگ آرزو نے رہ و رسم گفتگواے دل وجان خلق تو ہم کو بھی آشنا سمجھکیا پوچھے ہے برخود غلطی ہائے عزیزاں؟خواری کو بھی اک عار ہے عالی نسبوں سےطاقت فسانہ باد اندیشہ شعلہ ایجاداے غم ہنوز آتش! اے دل ہنوز خامی!ہرچند عمر گزری آزردگی میں لیکنہے شرح شوق کو بھی جوں شکوہ ناتمامیہے یاس میں اسد کو ساقی سے بھی فراغتدریا سے خشک گزری مستوں کی تشنہ کامیہے پیچ تاب رشتہ شمع سحر گہیخجلت گدازی نفس نارسا مجھےتاچند پست فطرتی طبع آرزو؟یارب ملے بلندی دست دعا مجھےیک بار امتحان ہوس بھی ضرور ہےاے جوش عشق بادہ مرد آزما مجھےاسد جمعیت دل درکنار بیخودی خوشتردوعالم آگہی سامان یک خواب پریشاں ہےآتش افروزی یک شعلہ ایماں تجھ سےچشمک آرائی صدشہر چراغاں مجھ سےنگہ معمار حسرتہا چہ آبادی؟ چہ ویرانی؟کہ مژگاں جس طرف واہو کف دامان صحرا ہےبسختی ہائے قید زندگی معلوم آزادیشرر در بنددام رشتہ رگ ہائے خارا ہےاسد بہار تماشائے گلستان حیاتوصال لالہ عذاران سروقامت ہےشوخی مضراب جولاں، آبیار نغمہ ہےبرگریز ناخن مطرب بہار نغمہ ہےکس سے اے غفلت تجھے تعبیر آگاہی ملےگوشہا سیمابی و دل بے قرار نغمہ ہےساز عیش بیدلی ہے خانہ ویرانی مجھےسیل یاں کوکِ صدائے آبشار نغمہ ہےخود فروشیہائے ہستی بسکہ جائے خندہ ہےہرشکست قیمت دل میں صدائے خندہ ہےنقش عبرت درنظرہا نقد عشرت دربساطدوجہاں وسعت بقدریک فضائے خندہ ہےجائے استہزا ہے عشرت کوشی ہستی اسدصبح وشبنم فرصتِ نشوونمائے خندہ ہےتمثال جلوہ عرض کر، اے حسن کب تلکآئینہ خیال کو دیکھا کرے کوئی؟عرض سرشک پر ہے فضائے زمانہ تنگصحرا کہاں کہ دعوت دریا کرے کوئی؟زنجیر یاد پڑتی ہے جادے کو دیکھ کراس چشم سے ہنوز نگہ یادگار ہےنگاہ عبرت افسوں گاہ برق وگاہ مشعل ہےہوا ہرخلوت وجلوت سے حاصل ذوق تنہائینے حسرت تسلی نے ذوق بے قرارییک درد وصد دواہے یک دست و صددعا ہےرخسار یار کی جو کھلی جلوہ گستریزلف سیاہ بھی شب مہتاب ہو گئیخبرنگہ کو نگہ چشم کو عدو جانےوہ جلوہ کرکہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانےزباں سے عرض تمنائے خامشی معلوممگر وہ خانہ برانداز گفتگو جانےبادشاہی کا جہاں یہ حال ہو غالب تو پھرکیوں نہ دلی میں ہر اک ناچیز نوابی کرےیک دربرروئے رحمت بستہ دورشش جہتناامیدی ہے خیال خانہ ویراں کیا کرےتوڑ بیٹھے جب کہ ہم جام وسبو پھر ہم کو کیاآسماں سے بادہ گلفام گر برسا کرےحیرت حجاب جلوہ ووحشت غبار چشمپائے نظر بدامن صحرا نہ کھینچیےواماندگی بہانہ و دلبستگی فریبدرد طلب بہ آبلہ پا نہ کھینچیےہے بے خمار نشہ خون جگر اسددست ہوس بگردن مینا نہ کھینچیےواماندہ ذوق طر ب وصل نہیں ہوںاے حسرت بسیار تمنا کی کمی ہےمژہ پہلوئے چشم اے جلوہ ادراک باقی ہےہوا وہ شعلہ داغ اور شوخی خاشاک باقی ہےگداز سعی بینش شست وشوسے نقش خودکامیسراپا شبنم آئیں یک نگاہ پاک باقی ہےچمن زار تمنا ہوگیا صرف خزاں لیکنبہارنیم رنگ آہ حسرت ناک باقی ہےنہ حیرت چشم ساقی کی نہ صحبت درد ساغر کیمری محفل میں غالب گردش افلاک باقی ہےلالہ وگل بہم آئینہ اخلاق بہارہوں میں وہ داغ کہ پھولوں میں بسایا ہے مجھےدرد اظہار تپش کسوتی گل معلومہوں میں وہ چاک کہ کانٹوں میں سلایا ہے مجھےبے دماغ تپش وعرض دوعالم فریادہوں میں وہ خاک کہ ماتم میں اڑایا ہے مجھےجام ہر ذرہ ہے سرشار تماشا مجھ سےکس کا دل ہوں کہ دوعالم میں لگایا ہے مجھےجوش فریاد سے لوں گا دیت خواب اسدشوخی نغمہ بیدل نے جگایا ہے مجھےجنوں رسوائی وارستگی زنجیر بہتر ہےبقدر مصلحت دل تنگی تدبیر بہتر ہےخوشا خودبینی وتدبیر وغفلت نقد اندیشہبدین عجز اگر بدنامی تقدیر بہتر ہےدلِ آگاہ تسکیں خیز بیدردی نہو یاربنفس آئینہ دارآہ بےتاثیر بہتر ہےخدایا چشم تادل درد ہے افسون آگاہینگہ حیرت سواد خواب بےتعبیر بہتر ہےدرون جو ہر آئینہ جوں برگ حنا خوں ہےبتاں نقش خودآرائی حیا تحریر بہتر ہےدریوزہ سامان ہا اے بے سروسامانیایجاد گریبان ہا درپردہ عریانیتمثال تماشاہا اقبال تمناہاعجز عرق شرمے اے آئینہ حیرانیدعوائے جنوں باطل تسلیم عبث حاصلپرواز فنا مشکل میں عجز تن آسانیبیگانگی خوہا موج رم آہوہادام گلہ الفت زنجیر پشیمانیپرواز تپش رنگے گلزار ہمہ تنگےخوں ہو قفس دل میں اے ذوق پرافشانیسنگ آمد وسخت آمد درد سرخوداریمعذور سبکساری مجبور گر انجانیگلزار تمنا ہوں گلچین تماشاہوںصد نالہ اسد بلبل دربند زباندانیخواب غفلت بہ کمین گاہ نظر پنہاں ہےشام سائے میں بتاراج سحر پنہا ں ہےدوجہاں گردش یک سبحہ اسرار نیازنقد صددل بہ گریبان سحر پنہاں ہےخلوت دل میں نہ کر دخل، بجز سجدہ شوقآستاں میں صفت آئینہ درپنہاں ہےہوش اے ہرزہ درا تہمت بیدردی چندنالہ درگرد تمنائے اثر پنہاں ہےوہم غفلت مگر احرام فسردن باندھےورنہ ہرسنگ کے باطن میں شررپنہاں ہےہے عرض جوہر خط وخال ہزارعکسلیکن ہنوز دامن آئینہ پاک ہےہوں خلوت فسردگی انتظار میںوہ بے دماغ جس کو ہوس بھی تپاک ہےمستی بذوق غفلت ساقی ہلاک ہےموج شراب یک مژہ خوابناک ہےجوش جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں اسدصحرا ہماری آنکھ میں ایک مشت خاک ہےنظر پرستی و بیکاری و خود آرائیرقیب آئینہ ہے حیرت تماشائیزخود گذشتن دل کاروان حیرت ہےنگہ غبار ادب گاہ جلوہ فرمائیخراب نالہ بلبل شہید خندہ گلہنوز دعوی تمکین و بیم رسوائیہزار قافلہ آرزو بیاباں مرگہنوز محمل حسرت بدوش خودرائیوہم طرب ہستی ایجاد سیہ مستیتسکیں دہ صد محفل یک ساغر خالی ہےصد جلوہ روبرو ہے جو مژگاں اٹھائیےطاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیےیامیرے زخم رشک کو رسوا نہ کیجیےیا پردہ تبسم پنہاں اٹھائیےبساط عجز میں تھا ایک دل ایک قطرہ خوں وہ بھیسو رہتا ہے بانداز چکیدن سرنگوں وہ بھیرہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلف سےتکلف برطرف تھا ایک انداز جنوں وہ بھینہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہم دمکہ ہوگا باعث افزائش درد دروں وہ بھینہ اتنا برش تیغ جفا پر ناز فرماؤمرے دریائے بیتابی میں ہے اک موج خوں وہ بھیمئے عشرت کی خواہش ساقی گردوں سے کیا کیجےلیے بیٹھا ہے اک دوچار جام واژگوں وہ بھیمرے دل میں ہے غالب شوق وصل وشکوہ ہجراںخدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں وہ بھیدرد سے میرے ہے تجھ کو بےقراری ہائے ہائےکیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائےتیرے دل میں گرنہ تھا آشوب غم کا حوصلہتونے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہائے ہائےکیوں مری غمخوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیالدشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائےعمر بھر کا تونے پیمان وفا باندھا تو کیا؟عمر کو بھی تو نہیں ہےپایداری ہائے ہائےزہر لگتی ہے مجھے آب وہوائے زندگییعنی تجھ سے تھی اسے ناسازگاری ہائے ہائےگلفشا نی ہائے ناز جلوہ کو کیا ہوگیا؟خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائےشرم رسوائی سے جاچھپنا نقاب خاک میںختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائےخاک میں ناموس پیمان محبت مل گئیاٹھ گئی دنیا سے راہ و رسم یاری ہائے ہاےہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہادل پہ اک لگنے نہ پایا زخم کاری ہائے ہائےکس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تاربرشگالہے نظر خوکردہ اختر شماری ہائے ہائےگوش مہجور پیام و چشم محروم جمالایک دل تس پر یہ ناامیدواری ہائے ہائےعشق نے پکڑا نہ تھا غالب ابھی وحشت کا رنگرہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوق خواری ہائے ہائےہریک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدمجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہےکس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدارحمت کو عذر خواہ لب بے سوال ہےہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدعالم تمام حلقہ دام خیال ہےتم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے پوچھوحذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہےدلا یہ درد والم بھی تو مغتنم ہے کہ آخرنہ گریہ سحری ہے نہ آہ نیم شبی ہےڈھونڈھے ہے اس مغنی آتش نفس کوجیجس کی صدا ہو جلوہ برق فنا مجھےمستانہ طے کروں ہوں رہ وادی خیالتا بازگشت سے نہ رہے مدعا مجھےکھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ؟شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھےایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونقنوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہینہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواگرنہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہیرہا آباد عالم اہل ہمت کے نہ ہونے سےبھرے ہیں جس قدر جام و سبو میخانہ خالی ہےآغوش گل کشودہ برائے وداع ہےاے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کےہرقدم دوری منزل ہے نمایاں مجھ سےمیری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سےگردش ساغر صد جلوہ رنگیں تجھ سےآئینہ داری یک دیدہ حیراں مجھ سےنگہ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے اسدہے چراغاں خس وخاشاک گلستاں مجھ سےہے وہی بدمستی ہر ذرہ کا خود عذر خواہجس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہےعالم غبار وحشت مجنوں ہے سربسرکب تک خیال طرہ لیلا کرے کوئیافسردگی نہیں طرب انشائے التفاتہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئیرونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھےآخر کبھی توعقدہ دل وا کرے کوئیلخت جگر سے ہے رگ ہرخار، شاخِ گلتاچند باغبانی صحرا کرے کوئی؟ناکامی نگاہ ہے برق نظارہ سوزتووہ نہیں ہے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئیبیکاری جنوں کو ہے سر پیٹنے کاشغلجب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئیہے ذرہ ذرہ تنگی جا سے غبارشوقگردام یہ ہے وسعت صحرا شکار ہےبے پردہ سوئے وادی مجنوں گذر نہ کرہر ذرے کے نقاب میں دل بے قرار ہےاے عندلیب یک کفِ خس بہر آشیاںطوفان آمد آمد فصل بہار ہےقمری کف خاکستر وبلبل قفس رنگاے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہےمجبوری و دعوائے گرفتاری الفتدست تہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہےناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے دادیارب اگر ان کردہ گناہو ں کی سزا ہےمے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کواک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئےخزاں کیا فصل گل کہتے ہیں کس کو؟ کوئی موسم ہووہی ہم ہیں قفس ہے اور ماتم بال وپر کا ہےنہ لائی شوخی اندیشہ تاب رنج نومیدیکف افسوس ملنا عہد تجدید تمنا ہےاپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہوآگہی گر نہیں غفلت ہی سہیدیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہےمیں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہےہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہےآبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہےشوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیےدل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہےدور چشم بدتری بزم طرب سے واہ واہ!نغمہ بن جاتا ہے واں گرنالہ میرا جائے ہےگرچہ ہے طرز تغافل پردہ دار راز عشقپر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پاجائے ہےہوکے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیارنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہےسایہ میرا مجھ سے مثل دودبھاگے ہے اسدپاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہےنسیہ و نقد دوعالم کی حقیقت معلوملے لیا مجھ سے مری ہمت عالی نے مجھےکثرت آرائی وحدت ہے پرستاری وہمکر دیا کافران اصنام خیالی نے مجھےہوس گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہاعجب آرام دیا بے پروبالی نے مجھےچاک مت کر جیب بے ایام گلکچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیےمنحصر مرنے پہ ہو جس کی امیدناامیدی اس کی دیکھا چاہئےپھرکچھ اک دل کو بے قراری ہےسینہ جویائے زخم کاری ہےچشم دلال جنس رسوائیدل خریدار ذوق خواری ہےدل ہوائے خرام ناز سے پھرمحشر ستان بےقراری ہےسنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی کیا قیامت ہےکہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سےمدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئےجوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئےپھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دمبرسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئےپھر گرم نالہ ہائے شرر بار ہے نفسمدت ہوئی ہے سیرچراغاں کیے ہوئےپھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشقسامان صد ہزار نمک داں کیے ہوئےباہم دگر ہوئے ہیں دل ودیدہ پھر رقیبنظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئےدل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہےپندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئےپھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلبعرض متاع عقل و دل و جاں کیے ہوئےدوڑے ہے پھر ہرایک گل ولالہ پرخیالصدگلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئےمانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوسزلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئےچاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزوسرمے سے تیز دشنہ مژگاں کیے ہوئےاک نوبہار ناز کو تاکے ہے پھرنگاہچہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئےپھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیںسرزیر بار منت درباں کیے ہوئےجی ڈھونڈھتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دنبیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئےغالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سےبیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کیے ہوئےفریاد کی کوئی لے نہیں ہےنالہ پابند نے نہیں ہےہاں کھائیو مت فریب ہستیہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہےہستی ہے نہ کچھ عدم ہے غالبآخر تو کیا ہے اے نہیں ہےبہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کیوہ اک نگہ کہ بظاہر نگاہ سے کم ہےدیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہامیں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہےبس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائےگییہ جو اک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہےگھرمیں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتاوہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہےاگ رہا ہے درودیوار سے سبزہ غالبہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہےوہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاںاٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئیدیکھو تو دل فریبی انداز نقش پاموج خرام یاربھی کیا گل کتر گئیہربوالہوس نے حسن پرستی شعار کیاب آبروئے شیوہ اہل نظر گئیزندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھےمثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیرکرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیےبقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزلکچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیےکوئی امید بر نہیں آتیکوئی صورت نظر نہیں آتیموت کا ایک دن معین ہےنیند کیوں رات بھر نہیں آتیآگے آتی تھی حال دل پہ ہنسیاب کسی بات پر نہیں آتیجانتا ہوں ثواب طاعت و زہدپر طبیعت ادھر نہیں آتیہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوںورنہ کیا بات کر نہیں آتیہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھیکچھ ہماری خبر نہیں آتینہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ اداکوئی بتاؤ کہ وہ شوخ تند خو کیا ہے؟رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائلجب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے؟واعظ نہ پیو، نہ کسی کو پلا سکوکیا بات ہے تمہاری شراب طہور کیگوواں نہیں پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیںکعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کیکیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جوابآؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کینکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنےکیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنےکہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے؟پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنےنہیں نگار کو الفت نہ ہو نگار تو ہےروانی روش و مستی ادا کہیےنہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہےطراوت چمن و خوبی ہوا کہیےسفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالبخدا سے کیا ستم وجور ِناخدا کہیےہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلےبہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلےبھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کااگراس طرہ پر پیچ وخم کا پیچ وخم نکلےہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کیوہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلےہے ہوا میں شراب کی تاثیربادہ نوشی ہے بادپیمائیدہر جز جلوہ یکتائی معشوق نہیںہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں؟بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوقبیکسی ہائے تمنا کہ دنیا ہے نہ دیںہرزہ ہے نعمہ زیر وبم ہستی وعدملغو ہے آئینہ فرق جنون و تمکیںنقش معنی ہمہ خمیازہ عرض صورتسخن حق ہمہ پیمانہ ذوق تحسیںلاف دانش غلط ونفع عبادت معلومدُرد یکِ ساغر غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیںحاشیہ(۱) میں نے ان اشعار کا انتخاب انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لیے کیا تھا، اس وجہ سے ان کی زبان میں کشش تھی، ان میں وہ ’’مغز‘‘ معلوم ہوتا تھا جو ترجمے کو کسی قدر آسان کر دیتا ہے اور امید تھی کہ یہ سمجھ میں بھی آ جائیں گے۔ یہ امید میری اپنی کوشش سے نہیں بلکہ جناب روش صدیقی صاحب کی رہنمائی سے پوری ہوئی۔ آخر میں معلوم ہوا کہ یہ اشعار ترجمے کے لیے نہایت موزوں ہیں۔