خاں صاحب
ہمارے محلے میں ایک خاں صاحب رہتے تھے۔ میں نے جب انہیں پہلی مرتبہ دیکھا تو ان کی عمر قریب پینتالیس سال کے تھی، مگر روایات سے معلوم ہوا کہ ان کے بال ہمیشہ سے ایسے ہی سیاہ و سپید کی آمیزش رہےہیں۔ آنکھیں ایسی ہی خونی، مزاج ترش اور ٹوپی میلی، بواسیر کی شکایت بھی ان کی ہستی سے وابستہ تھی، مدتوں سے وہ شہر کے تمام طبیبوں اور ہندوستان کی تمام درگاہوں کی برائی کرتے چلے آئے تھے۔
ہمارے محلے میں کسی کو بھی وہ دن یاد نہ تھے، جب خاں صاحب کی کریہہ اور دل لرزانے والی آواز گلی کوچے میں نہیں گونجتی تھی۔ یا ان کا سیاہ چہرہ، قوی ہیکل جسم اور لمبا لٹھ خوف اور نفرت سے لوگوں کی نگاہیں نیچی نہیں کردیتا تھا۔ خاں صاحب کے پیشے کا کسی کو علم نہ تھا، سوا ان کم بختوں کے جنھیں کسی ناگہانی مصیبت میں روپے کی ضرورت ہوئی اور انہوں نے خاں صاحب سے مدد مانگی، مگر ان کی کیا مجال تھی کہ گالیاں سن کر اور سود در سود ادا کرکے بھی خاں صاحب کے پیشے کا کسی سے ذکر کریں۔ خاں صاحب سویرے جاکر موذن کو جگاتے تھے، مسجد کا امام ان کے ڈر سے نماز میں لمبی لمبی سورتیں پڑھتا تھا، دیر تک دعا مانگتا اور دعامانگتے مانگتے کثرت گناہ کا احساس اسے رلا بھی دیتا تھا۔ خاں صاحب کی ذات نے اس مسجد کو جو علاوہ جمعے کے ویران پڑی رہتی تھی اجتماعِ مسلمین کا مرکز بنادیا تھا۔ جہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوا کرتی تھی۔ خاں صاحب کی داڑھی دیکھ کر شریفوں کیا غنڈوں میں میں بھی ڈاڑھی مونڈنے کی ہمت نہ رہی۔ خاں صاحب کا چہرہ سیاہ اور آنکھیں خونی تھیں تو کیا، انھوں نے سینکڑوں مسلمانوں کی صورتیں منور کردی تھیں۔ ان کا مزاج ترش تھا تو کون سی شکایت کی بات، جب ان کی وجہ سے اتنے گمراہ بندے اپنے خدا کے قہر سے پناہ مانگنے لگے تھے۔
ہمارے محلے کے بنئے تو مستقل اختلاج قلب کے مریض ہوگیے۔ مگر بنیوں کا کیا، ان کا تو پیشہ یہی ہے، اگر دھوتی میل سے کالی اور قلب میں اختلاج نہ ہو تو وہ سود کا نرخ کیسے بڑھائیں۔ خاں صاحب شریعت کے ایسے عالم تھے کہ بغیر کفر کا الزام اپنے سر لیے دنیاوی معاملات میں بھی کوئی ان کی مخالفت نہیں کرسکتا تھا۔ منطقی ایسے کہ جوش گفتار سے دوسرے کا دماغ پھرادیں اور فلسفی اس پایے کے کہ جب بیان شروع کریں تو کسی سے بغیر ہاں میں ہاں ملائے نہ بن پڑے۔ خاں صاحب نہایت فصاحت وبلاغت سے دین اسلام کی خوبیاں اپنے پست اندیشہ ہم جنسوں پر روشن کرتے،تنگ نظروں کو خدا کی مصلحت سمجھاتے اور مناظر کائنات کی تعریف میں سردآہیں بھرتے تھے۔
ہمارا محلہ غریبوں کا تھا، کسی بیچارے کو اتنی مہلت کہاں ملتی تھی کہ شریعت، فلسفہ، منطق اور جمالیات میں یہ امتیاز حاصل کرے۔ خاں صاحب نے اپنی عقل و دانش اور مہیب شخصیت کے اثر سے محلے والوں کے دل و دماغ اور قوت ارادی کو معطل کردیا تھا۔ اور محلے والے غلامی کےایسے عادی ہوگیے تھے کہ انہیں اپنی آزادی کے دن تک یاد نہ رہے۔
خاں صاحب جب ہمارے محلے میں آکر بسے تو اپنی بیوی کو ساتھ لائے تھے۔ مدتوں تک نہ کسی نے ان کی بیوی کی صورت دیکھی، نہ کسی کو ان کے گھر کا حال معلوم ہوا۔ بہت دن ہوئے ایک بچہ ان کے دروازے کےسامنے کھیلتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ سال دو سال بعد ایک بچی بھی اس کے ساتھ کھیل میں شریک ہونےلگی، مگر لوگ خاں صاحب کے مکان کی طرف سے بغیر ضرورت کے گزرنا پسند نہیں کرتے تھے، اور جب بچہ کسی بیماری میں مرگیا تو لوگ بھول گیے کہ خاں صاحب کے ایک لڑکی بھی ہے۔ میری خالہ کو یہ معلوم تھا اس لیے کہ وہ بچے کی تعزیت میں ہمت کرکے خاں صاحب کے یہاں پہنچی تھیں۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ مہینے بھر بخار میں مبتلا رہیں۔ مزاج پرسی کے سلسلے میں خاں صاحب کی بیوی کا بھی میری خالہ کےیہاں کئی دفعہ آنا ہوا اور یوں دنوں بیبیوں کے تعلقات بڑھ گیے۔
مگر خاں صاحب کی بیوی کی کیا مجال تھی کہ انسانیت کے فرائض اداکریں اور میری خالہ کے گھر میں قدم رکھیں، اگر میری خالہ کو ان کی سخاوت، دین داری اور غریب پروری نے محلے کیا تمام شہر میں مشہور نہ کیا ہوتا۔ بیوہ ہونے کے بعد انھوں نے اکلوتے بیٹے کو اپنے سامنے مرتے دیکھا تھا۔ اس صدمے نے دنیا سے ان کی طبیعت ایسی ہٹادی کہ انھوں نے اپنی عمر عبادت کے لیے وقف کردی اور جائداد کی ساری آمدنی غریب بچوں کی تربیت اور حاجت مندوں کی امداد میں صرف کرتی تھیں، ہر مولوی، ملا، امام، حافظ، عالم کو ان کے یہاں سے وظیفہ ملتا تھا۔ جن لوگوں کو خاں صاحب سود پر روپیہ دیتے تھے وہ ان کے یہاں اکثر آچکے تھے، اور خاں صاحب کے ہتھے اس وجہ سے چڑھے کہ مستقل وظیفوں میں میری خالہ کی آمدنی صرف ہوجاتی تھی اور وہ خود کبھی کبھی فاقے سے رہتی تھیں۔
خاں صاحب نے شریعت کی پابندی اور مکےکے زورسےجو اقتدار حاصل کیا تھا، وہ میری خالہ کے اثر سے مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ اسی وجہ سےجب کبھی ان کی بیوی میری خالہ سےملنے آتیں تو وہ اپنا سلام بھی کہلا بھیجتے۔ میری خالہ کو یہ معلوم ہوگیا کہ خاں صاحب کو ڈولی کا کرایہ دینا ناگوار گزرتا ہے اور انھوں نے خاں صاحب کی بیوی کو پیشگی کرایہ بھیجنے کا قاعدہ بنالیا، اس پر بھی خادمہ کو سخت تاکید تھی کہ خاں صاحب اسے دیکھ نہ پائیں، ورنہ وہ کرایہ وصول کرلیتے اور کہلا بھیجتے کہ بیوی کی طبیعت بہت خراب ہے۔
خاں صاحب کی بیوی کو جب میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ ادھیڑ عمر کی تھیں مگر اس سن پر بھی ان کی جوانی کے حسن کی جھلک نظر آتی تھی، جسے دیکھ کر تعجب ہوتا تھا کہ وہ خاں صاحب کے پنجے میں کیسے پھنسیں، اونچا قد، سڈول جسم، بڑی بڑی پراسرار آنکھیں، لہجے میں متانت، ہرشخص امیر ہو یا غریب، جوان ہو یا بوڑھا انھیں دیکھتے ہی اپنے دل میں ان کی عزت کرنے لگتا۔ برتاؤ میں ایسی ہمدردی، ایسا خلوص کہ دل سے ہزار پریشانیوں کی کدورت دور کردے۔ طبیعت کی شریف ہونے کےعلاوہ وہ اتنی تعلیم یافتہ اور مہذب تھیں کہ میری خالہ کو یقین ہوگیا کہ خاں صاحب کے ساتھ ان کی شادی سوچ سمجھ کر نہیں کی گئی۔ غالباً ان کے ماں باپ پر کوئی ایسی ہی مصیبت آئی ہوگی کہ ان بیچاروں کوایسی لڑکی ایسے آدمی کے سپرد کردینا بھی غنیمت معلوم ہوا۔ اصل واقعہ میری خالہ باوجود کثرتِ ملاقات کے دریافت نہ کرسکیں۔ ایک دو بار انھوں نے پوچھا تو ضرور، لیکن خاں صاحب کی بیوی نے سرد آہیں بھر کر ٹال دیا اور ان کا تکلف دیکھ کر میری خالہ نے پوچھنا چھوڑ دیا۔ اس ناواقفیت سے ان دونوں کی گہری دوستی اور محبت میں کوئی فرق نہیں آیا، اور جب خاں صاحب کی بیوی نے ایک دن میری خالہ سے درخواست کی کہ ان کی بچی کی پرورش وہ اپنے ذمہ لے لیں تو ان کی محبت اور پختہ ہوگئی۔
خاں صاحب کی بچی سکینہ اس زمانے میں دس بارہ برس کی تھی، میری خالہ کی بہت پہلے سے خواہش تھی کہ اسے اپنے ساتھ رکھیں، لیکن ایک ستم زدہ ماں سے اس کی اکلوتی بچی کا مانگنا انھیں کسی صورت سے گوارا نہ ہوا۔ خاں صاحب کی بیوی نے شریفوں کے یہاں تربیت پائی تھی اور گو انھیں یقین تھا کہ میری خالہ کو ان کی بچی سے بہت محبت ہے مگر انھوں نے اپنی طرف سے کبھی کوئی اشارہ نہیں کیا۔ سکینہ جب میری خالہ کے یہاں آتی تو بہت خوش ہوتی، کھیلتی کودتی، خالہ کی خدمت بھی کرتی، جب جاتی تو ہمیشہ آنکھوں میں آنسو لے کر جاتی اور وہ خالہ سے وعدہ لے کر کہ وہ اسے پھر جلد یاد کریں گی۔ مگر دونوں بی بیوں کے تکلف میں پانچ چھ سال گزر گیے۔ خالہ کے یہاں وہ مستقل طور پر یوں آگئی کہ وہ بڑی ہوگئی تھی، کہاروں نے اسے ماں کے ساتھ نہیں بیٹھنے دیا اور خاں صاحب نے اعلان کیا کہ اگر انھوں نے کبھی اسے رستے میں چلتے دیکھا تو اس کا گلا گھونٹ دیں گے۔
خالہ پر کہاروں کا کرایہ ویسے بھی چڑھ گیا تھا، ایک اور ڈولی کی درخواست ان سے کیسے کی جاتی، پھر بھی یہ انتظام زیادہ تر سکینہ کی تحریک سے ہوا، وہ ابھی تک اپنی ماں کی مجبوریاں اور باپ کی فطرت کو نہیں سمجھی تھی۔ اس نے ایک دن کہا کہ وہ خالہ کے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور ماں نے خود ہمت کرکے اپنی طرف سے یہ درخواست کردی، اس خوف سے کہ وہ کہیں واقعی کہہ نہ دے اور میری خالہ کو گمان ہو کہ وہ براہِ راست نہیں کہنا چاہتی تھی، اس لیے لڑکی سے کہلوایا، جب سکینہ کا میری خالہ کے ساتھ رہنا طے ہوگیا تو انھیں اور بھی مصلحتیں سوجھیں، خاں صاحب سکینہ کو میلے چتھڑوں میں رکھتے تھے۔ اب وہ ایسی بچی نہیں رہی تھی کہ میلی ہونے کاالزام اسی پر لگادیا جائے مگر وہ خاں صاحب کو اپنی گرہ سے کچھ خرچ کرنے پر آمادہ نہ کرسکیں۔ خاں صاحب سےیہ امید کرنا بھی فضول تھا کہ وہ اس کی آئندہ زندگی کے لیے سامان کریں گے۔ میری خالہ کے جو تعلقات تھے انھیں دیکھتے ہوئے سکینہ کے لیے ایک ہونہار شریف زادے کی تلاش کرنا کوئی مشکل بات نہ تھی۔یہ سب تدبیریں تھیں، پھر یکایک تقدیر نے اپنی صورت دکھائی۔ جب سکینہ میری خالہ کے پاس ایک مہینے کے قریب رہ چکی تھی تو خاں صاحب نے اپنی بیوی سے پوچھا،
’’کیوں ری سکینہ کی تنخواہ تونے کاہے میں خرچ کرڈالی؟‘‘
خاں صاحب کی بیوی سہم گئیں۔
’’کیسی تنخواہ؟‘‘
’’ہونہہ! کیا اپنی پلی پلائی لڑکی کسی کو مفت دیتا ہے؟‘‘
خاں صاحب کی بیوی نے بجائے جواب دینے کے اپنا منہ چادر میں لپیٹ لیا اور روتے روتے سوگئیں۔ اپنے شوہر کی بے حیائی پر انھیں ہر دوسرے تیسرے روز شرمندہ ہونا پڑتا تھا۔ اس کی وہ عادی ہوگئی تھیں لیکن اب تو انھیں خود بھی ذلیل کرنے کی ترکیبیں تھیں، اگر بچنے کی کوئی امید ہوتی تو وہ اس کی فکر کرتیں، لیکن انھیں یقین تھا کہ خاں صاحب بغیر اپنے ٹکے وصول کیے نہ مانیں گے۔ وہ اسی کشمکش میں تھیں کہ بات کیسے بنائی جائے۔ ایک روز جب وہ میری خالہ کی ڈیوڑھی میں ڈولی پر سے اتریں تو خاں صاحب نکلتے ہوئے دکھائی دیے، اندر پہنچیں تو خالہ کو برہم پایا اور وہ بے چاری اپنا سا منہ لے کر ایک کونے میں بیٹھ گئیں، خالہ کو سلام کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
جب مغرب کے بعد سکینہ کے ذریعے سے معلوم ہوا کہ خالہ کا غصہ اترگیا ہے تو روتی ہوئی ان کے سامنے آئیں، خالہ نے انھیں گلے لگالیا، ہمدردی کے کچھ آنسو ٹپکائے مگر بہت دیر خاموش بیٹھی رہیں۔ کہتیں تو کیا کہتیں؟ خاں صاحب نے اپنے افلاس کا دکھڑا رویا تھا، نہایت عجزوانکسار کے ساتھ نوٹس دیے گیےتھے کہ ’’میری لڑکی مجھے واپس مل جائے یا میری بھی پرورش ہو۔ ماں بوڑھی ہے اس سے کچھ کام کاج ہوتا ہواتا نہیں، اسے خود سہارے کی ضرورت ہے میں جو کچھ کرسکتا ہوں کرتا ہوں لیکن میں روٹی تو نہیں پکاسکتا۔ اتنی میری حیثیت نہیں کہ کسی کو نوکر رکھوں۔ اب حضور خود ہی سمجھ لیں آدمی اولاد کی پرورش اسی لیے کرتا ہے کہ بڑھاپے میں آرام ملے ۔‘‘
میری خالہ سمجھ گئیں، اگر ہوسکتا تو وہ کچھ نقدی خاں صاحب کے حوالے کرتیں مگر انھیں خود ان دنوں روپے کی بہت سخت ضرورت تھی۔ زیادہ غصہ انھیں اپنی بے بسی پر آیا، مگر جس طرح سے خاں صاحب نے اپنی بیوی کے ضعف پیری اور ان کی حاجتوں کو گفتگو میں پیش پیش رکھا، وہ بھی انھیں بہت ناگوار گزرا۔ خاں صاحب کی بیوی نہ بوڑھی تھیں نہ ضعیف۔ گھر کا کام کاج کرکے وہ اکثر میری خالہ کے یہاں پکانے میں مدد کرتی تھیں۔ خاں صاحب جس کفایت شعاری سے رہتے تھے اس کے لحاظ سے امورِ خانہ داری کوئی بارنہیں ہوسکتے تھے۔ نہ کسی کاقرض نہ کہیں سے تقاضا، نہ کوئی بحث و مباحثہ۔ اور پیٹ بھی کتنے بھرنے تھے۔ جب سے سکینہ چلی گئی تو چار روٹی ذرا سی بھاجی، ہفتے عشرے میں دوچار بوٹی گوشت۔ اور جب وہ تھی تو بھی ماں اپنے حصے میں سے اسے کھلاتی تھی۔ خاں صاحب کو کبھی یہ محسوس نہ ہوا کہ وہ اولاد کی پرورش کر رہے ہیں۔
یہ سب ماجرا خاں صاحب کی بیوی نے میری خالہ کو سنایا، مگر اس متانت اور ضبط سے کہ خاں صاحب پر کسی طرح کا صریحی الزام نہ آئے۔
’’یہ تو سب کچھ ہے مگر بی بی میں شکایت کس منہ سے کروں۔ خاں صاحب ایسے متقی، پرہیزگار، روزہ نماز کے پابند ہیں کہ جس کسی سے بھی پوچھو وہ تبادے گا کہ ان کی ذات سے کتنوں کو فائدہ پہنچا، کتنے مسلمان اپنے فرائض سے آگاہ ہوئے۔ مسجد ویران پڑی رہتی تھی، اب وہاں پنج وقتہ نماز باجماعت ہوتی ہے۔ ہزاروں کے لبوں پر اللہ کانام ہے۔ سینکڑوں ان کی دلیلوں سے قائل ہوکر شریعت کے احکام پورے کرنےلگے ہیں۔‘‘
’’ہاں بہن، اس میں تو کوئی کلام نہیں۔‘‘
’’اور پھر بی بی وہ معاملے کے ایسے صاف سچے ہیں۔ جھوٹے وعدے سے زیادہ انھیں کوئی بات ناگوار نہیں ہوتی، مجھ سے خود ہی کہہ رہے تھے کہ سکینہ کو اس طرح آپ کے متھے تھوپ دینا بے جا ہے۔‘‘
’’تم بھی بہن کیسی باتیں کرتی ہو۔۔۔ سکینہ کو تو میں اپنی بیٹی سمجھتی ہوں۔‘‘
’’یہ تو بی بی میں جانتی ہوں، میرا دل جانتا ہے۔۔۔ مگر ہم لوگ غریب ہیں، آپ کو چاہے جتنی محبت ہو، خاں صاحب کو تو ہمیشہ یہ اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں اس کا دماغ نہ پھر جائے۔۔۔ اسے آخر غریبوں ہی کے گھر زندگی بسر کرنا ہے۔‘‘
’’واہ بہن تم نے بیٹھے بیٹھے مجھے رئیس خوب بنادیا، میں بھلا اس کی کون سی خاطر کرسکتی ہوں اور وہ کیسے رہتی ہے۔‘‘
’’بی بی آپ کو تو سخاوت اور دین داری نے غریب کردیا ہے۔ ہماری نظروں میں تو آپ رئیس ہی ہیں۔‘‘
’’اچھا بہن، اگر ایسا ہی ہے تو اپنی لڑکی لے جاؤ میں اور کوئی سہارا ڈھونڈھ لوں گی، تمہاری بیٹی کی عادتیں تو نہ بگڑنے پائیں۔‘‘ میری خالہ نے ٹھنڈی سانس لی اور منہ پھیر لیا۔
خاں صاحب کی بیوی چوکنی ہوگئیں، وہ خاں صاحب کی صفائی تو ضرور کرنا چاہتی تھیں لیکن سکینہ کو اپنے گھر واپس بلالینا بھی انھیں کسی صورت سےمنظور نہ تھا۔
’’بی بی، آپ خفا نہ ہوں، خاں صاحب تو بات کے دھنی ہیں، جو بات جی میں ٹھان لیتے ہیں اسے چاہتے ہیں کہ فوراً کر بھی دکھائیں۔ میں نے انھیں سمجھایا تھا کہ ابھی آپ کے پاس حاضر نہ ہوں، مجھے پہلےآپ کو سارا ماجرا سنالینے دیں۔ سکینہ آپ کی لونڈی ہے، بھلا ہمیں کب یہ گوارا ہوگا کہ اس کی وجہ سے آپ کو کسی طرح کی تکلیف پہنچے۔ اس کی پرورش منظور ہے تو بڑی خوشی سے اپنے پاس رکھیے وہ بھی سدھرجائے گی، ہم بھی آپ کو دعا دیں گے آپ جیسا سرپرست اس دنیا میں اسے کہاں ملے گا۔۔۔‘‘
’’مگر بہن!‘‘خالہ نے بات کاٹ کر کہا، ’’میں اسے تنخواہ تو نہیں دے سکتی، میرے پاس جو کچھ ہے اس کاحساب کتاب تم خود جانتی ہو۔‘‘
’’بی بی خدا کاشکر ہے اس نے ہم کو کھانے کو دیا ہے۔ خاں صاحب کاتو یہ منشا بھی نہ تھا کہ اس کے نام سے ہماری پرورش کریں۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتے تھے کہ سکینہ اپنی حیثیت نہ بھول جائے۔ وہ آپ کی لونڈی ہے، کبھی اپنےآپ کو بیٹی نہ سمجھنے لگے۔ یہی انہیں اندیشہ تھا مگر وہ بات کرنا نہیں جاتنے۔ خدا جانے آپ سے کیا کہہ بیٹھے، آپ ناراض نہ ہوں، میں انھیں سمجھالوں گی۔‘‘
’’ہاں بہن تم انھیں سمجھادو۔ میرے پاس جو کچھ ہے وہ حاضر ہے۔ تنخواہ دینا میرے بس کی بات نہیں۔‘‘
خاں صاحب کی بیوی کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرکے گھر چلی گئیں۔ وہاں پہنچ کر میاں بیوی میں کچھ جھگڑا ہوا مگر روپیٹ کر بھی خاں صاحب کو ان کی بیوی اس پر آمادہ نہ کرسکیں کہ وہ تنخواہ سے دست بردار ہوں، خالہ سے جو گفتگو ہوئی تھی اسے سن کر انھیں ایک اور قوی دلیل مل گئی۔
’’ہم غریب آدمی ہیں‘‘انھوں نے اپنی بیوی سے کہا، ’’اگر سکینہ کے سامنے ہر مہینے اس کی تنخواہ وصول نہ کی گئی تو وہ خود کو رئیس زادی سمجھنے لگے گی، ہماری صورتیں دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے لگے گی۔‘‘
’’ارہ واہ!‘‘ خاں صاحب کی بیوی نے بگڑ کر کہا، ’’تم میری لڑکی کو سمجھتے کیا ہو۔ ایسی شریف طبیعت کی لڑکی شہر شہر تلاش کرو تو نہ ملے، تم اپنے ٹکے وصول کرنےکے لیے چاہے جو کچھ کہہ دو۔۔۔‘‘
خاں صاحب نے اپنی بیوی کو گھور کر دیکھا، ان کی آواز معمول سے زیادہ بلند ہوگئی تھی اور خاں صاحب کو اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی محلے والا ان کی باتیں نہ سن لے۔ خاں صاحب کی بیوی نے جب خالہ کے سامنے بھی اپنے شوہر کی رسوائی منظور نہیں کی تھی تو اب کیسے بے لگام ہوجاتیں۔ برسوں نباہا تھا ایک بار اور ضبط کرگئیں۔
’’خیر کچھ بھی ہو‘‘انھوں نے دبی زبان سے کہا، ’’میں تو سکینہ کی تنخواہ نہیں مانگوں گی نہ تمہیں مانگنے دوں گی۔‘‘
’’تو میری لڑکی واپس کرو۔‘‘
’’واپس بلالو، میرا کیا جاتا ہے، مگر روٹی کپڑا نہ ملا تو گھر گھر دکھڑا روتی نہ پھروں گی۔‘‘
اس دھمکی کا خاں صاحب پر مطلق اثر نہیں ہوا۔ لیکن چاہے جتنی کفایت کی جائے کچھ نہ کچھ تو سکینہ کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہونا ضروری تھا۔ خرچ کا نام سن کر ان کے کان کھڑے ہوگیے۔
’’اچھاری اگر تنخواہ نہیں لیتی، تو کچھ غلہ، روٹی، کپڑا تو مانگ لایا کر۔‘‘
خاں صاحب کی بیوی چپ ہوگئیں، خاں صاحب سمجھے کہ وہ راضی ہیں۔
یہ گفتگو رات کے وقت مکان کے چھوٹے سے صحن میں ہوئی تھی، گرمی کا موسم تھا۔ خاں صاحب شام ہی سے دوپلنگڑیاں صحن میں بچھوالیتے تھے، مغرب کی نماز سے واپس آتے ہی وہ ٹانگیں پھیلاکر پیٹھ کے بل لیٹ جاتے۔ اللہ ہو، اللہ ہو کرتے، یا حمد و نعت کی سنی سنائی غلط سلط نظمیں اپنے کریہہ لہجے میں گاتے۔ یہ عبادت کاسلسلہ کھانے تک جاری رہتا، اگر کھانے کے بعد فوراً نیند نہ آئی تو پھر اسے شروع کردیتے یا بیوی کو اپنا فلسفہ سناتے، اس روز کے بحث مباحثے کے غبار سےاپنی اور اپنی بیوی کی طبیعت صاف کرنے کے لیے انھوں نے مناسب سمجھا کہ کچھ بیان کیا جائے۔ ان کی بیوی کئی بار پلنگ سے اٹھ کر اندر چلی گئیں یا چادر میں منھ لپیٹ لیا اور کہا کہ ان کو نیند لگی ہے، لیکن خاں صاحب کی تقریر میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ اطاعت اور تابعداری کی خوبیاں بیان کررہے تھے اور یہ بیان ہمیشہ لمبا ہوتا تھا۔
خاں صاحب نے سوچا تھا کہ ان کی بیوی تنخواہ کی بجائے روٹی، دال، چاول مانگ لائیں گی اور اولاد کی ’’پرورش‘‘ پر ان کا جو خرچ ہوا تھا اس کی یوں تلافی ہوجائے گی، مگر ان کی بیوی نے کچھ مانگنے سے صاف انکار کردیا۔ تھوڑے دن خاں صاحب نے انتظار کیا اور جب ان کو یقین ہوگیا کہ بیوی کے ذریعہ سے ایک دانہ چاول تک نہ ملے گا تو انھوں نے دوسری ترکیبیں اختیار کیں، کبھی بے بلائے خالہ کے یہاں مہمان ہوجاتے، کبھی کہتے کہ بازار میں بہت اچھا کپڑا دیکھ آیا ہوں، اگر اجازت ہو تو سکینہ کے لیے دوچار گز خریدلاؤں اور معمولی کپڑا خریدکر اچھے کپڑے کے دام وصول کرتے، ہر دوسرے تیسرے دن خالہ سے ایک مختار رکھنے کی درخواست کرتے اور گھنٹوں وہ دشواریاں بیان کرتے جو ایک مختار کے نہ ہونے سے پیش آسکتی تھیں۔
میری خالہ سمجھ گئی تھیں کہ یہ سب سکینہ کی تنخواہ منظور نہ کرنے کی سزا ہے اور ممکن ہے وہ تنگ آکر سکینہ کواس کے گھر واپس روانہ کردیتیں۔ اس مصیبت سے سکینہ کو اس کی ماں نے بچایا اور بے چاری ہر طرح سے خالہ کو خوش رکھنےکی تدبیریں سوچتی رہتیں۔ جس دن خاں صاحب خالہ کے یہاں مہمان ہوتے وہ آکر کھانا پکاجاتیں، اگر کبھی موقع ملتا تو خاں صاحب کی آنکھ بچاکر خیرات کے لیے کچھ نہ کچھ خالہ کے پاس لے آتیں۔ خالہ اگر ان سے کسی با ت پر خوش ہوتیں تو وہ یہ کوشش کرتیں کہ خاں صاحب کے بارے میں انھیں جو بدگمانی ہے وہ کم ہوجائے یا کوئی عملی صورت اختیار نہ کرے۔ خالہ کو خاں صاحب کی سیرت پسند تو کبھی تھی نہ ہوسکتی تھی، لیکن ان کی بیوی کے ایثار اور جاں فشانی سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ وہ خاں صاحب کی بے تمیزیوں اور کمینی حرکتوں سے درگزر کرتی رہیں۔
یوں ہی دوسال گزر گیے۔ خاں صاحب کی بیوی نے جس امید میں پچھلے دو تین سال کاٹے تھے اس کے پورے ہونے کا وقت آگیا، سکینہ جوان ہوگئی تھی، اور خالہ یہ دیکھ کر اس کے لیے شوہر تلاش کرنے لگیں۔ اسی سلسلے میں انھیں میرے بچپن کا ایک ساتھی یاد آیاجو صورت اور سیرت کے لحاظ سے خوبیوں اور نیکیوں کا مجموعہ تھا۔ لیکن ابھی تک افلاس کی وجہ سے اس کی شادی نہیں ہوسکی تھی۔ خالہ نے اسے اپنے یہاں بلوایا، بڑی جدوجہد سے اسے کسی دفتر میں نوکر رکھایا، اور شادی کے لیے سامان جمع کرنے لگیں۔ انھوں نے اپنا ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا، لیکن سکینہ کو وہ اس نوجوان سے پردہ کراتی تھیں، اور کوئی رشتے کی لڑکی نہیں تھی جس کی شادی کا سامان مہیا کرنا ضروری تھا۔ یوں خاں صاحب کی بیوی سمجھ گئیں کہ یہ سب سکینہ کے لیے ہو رہا ہے۔ لڑکا بھی انھیں پسند تھا اور وہ دل ہی دل میں یہ سوچ کر خوش ہونےلگیں کہ اب ان کی تقدیر پلٹی ہے اور برسوں کی جفاکشی کااب اجر ملے گا۔
خالہ نے ان سے ابھی تک شادی کے معاملہ میں کوئی گفتگو نہیں کی تھی۔ وہ اس انتظار میں تھیں کہ لڑکے کی آمدنی کا ذریعہ ہوجائےاور جب اس میں کامیابی ہوئی تو جہیز کی فکر میں پڑگئیں۔ اسی وجہ سے خاں صاحب کی بیوی نے خا ں صاحب سے بھی کچھ نہیں کہا۔ لیکن خاں صاحب کی نظر بہت تیز تھی۔ ایک مرتبہ رات کو جب ان کی بیوی لیٹی محبت کا خواب دیکھ رہی تھی۔ انھوں نے کہا، ’’کیوں ری، بی بی کہیں اس لڑکے سے سکینہ کی شادی تو نہ کربیٹھیں گی؟‘‘
خاں صاحب کی بیوی چونک پڑی۔
’’کیوں؟‘‘
’’میں تو اپنی لڑکی سستی دینے والا نہیں۔۔۔ اس کنگال کے پاس ہے کیا؟‘‘
’’سکینہ کے پاس کیا ہے؟‘‘
’’سکینہ کے پاس کچھ نہ سہی، ہمیں تو حوصلہ ہے۔‘‘
’’کاہے کا حوصلہ؟‘‘
’’وہ حوصلہ جوہرماں باپ کو ہوتا ہے۔ کچھ نقد ملے، کچھ مہر ملے، ہمارے پاس بھی بڑھاپا کاٹنے کے لیے کچھ روپیہ ہو۔ لڑکی کا کیا، وہ اپنے گھر جاکر بیٹھ رہے گی، ہم کو پوچھے گی بھی نہیں، اس کی شادی کرکے کیا ہم فاقے کریں گے۔‘‘
خاں صاحب نے اپنی بیوی کو عمر بھر یہ نہیں بتایا تھا کہ ان کی گزراوقات کا ذریعہ کیا ہے۔ خرچ کرنے کے لیے روز کے روز اپنی گرہ سے نکال کر کچھ دے دے دیتے یا بازار سے خود خرید لاتے۔ اس لیے جب وہ فاقے کی دھمکی سناتے تو ان کی بیوی کچھ جواب نہ دے سکتیں۔ اب بھی وہ خاموش ہوگئیں اور دیکھا تو دل کو بھی امیدوں سے خالی پایا۔
انھیں یقین تھا کہ خاں صاحب نے اپنے حوصلہ پورے کرنے چاہے تو سکینہ کی زندگی برباد ہوگی اور اسے بچانے کی یہی صورت تھی کہ خاں صاحب کا منہ روپے سے بند کردیا جائے۔ روپیہ نہ ان کے پاس تھا نہ میری خالہ کے پاس اور خاں صاحب سے جھوٹے وعدے کرنا خطرناک بھی تھا اور مشکل بھی۔ مگر جوڈوب رہا ہو، وہ تنکے کا سہارا بھی لیتا ہے۔ انھوں نے دوسرے دن میری خالہ سے آکر کہا، ’’بی بی! سکینہ اب ماشاء اللہ جوان ہوگئی ہے۔ آپ ہی کی عنایت سے اس نے پرورش پائی۔ اب خدا کانام لے کر ایک اور احسان بھی اس پر کیجیے۔‘‘
میری خالہ سمجھ گئیں۔
’’بہن میں اسی فکر میں مبتلا ہوں، لڑکا ڈھونڈھا ہے، اسے نوکری دلوائی ہے، اب جہیز کی فکر میں ہوں، دیکھو کب تک شادی کی نوبت آتی ہے۔‘‘
’’ہاں بی بی، لڑکا تو آپ نے بہت اچھا پسند کیا ہے۔ خاں صاحب نے اسے اس نظر سے تو نہیں دیکھا مگر تعریف بہت کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہا تھا کہ سکینہ کی اس سے نسبت ٹھہرجائے تو بہت اچھا ہوگا۔‘‘ پھر سوچ کر، ’’مگر بی بی نوکری کتنے کی ہے؟‘‘
’’ابھی تو تیس روپے ملیں گے، سال دو سال بعد شاید ترقی ہوجائے۔‘‘
’’بی بی، میں تو دل و جان سے آپ کی شکرگزار ہوں۔۔۔‘‘
’’بہن، میرے بس کی کیا بات تھی، یہ تو سب خدا کی دین ہے۔‘‘
’’ہاں بی بی یہ سب ٹھیک ہے، جو کچھ کرتا ہے خدا ہی کرتا ہے۔‘‘ میری خالہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔
’’مگر بی بی! ہم بھی بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی اور سہارا نہیں۔۔۔ خاں صاحب تو کہتے ہیں کہ خدا کی مرضی ہے تو ہم کو کہیں نہ کہیں سے کھانے کو ملتا رہے گا، مگر میری سمجھ میں نہیں آتا تیس روپے میں ہمارا گزارا کیسے ہوگا۔‘‘
’’اچھا بہن‘‘ میری خالہ نے کچھ طنز سے کہا، ’’تم نے ابھی سے پورا حساب بھی لگالیا۔‘‘
’’بی بی، حاجت ہوتی ہے تو آدمی ہر وقت اپنے ٹکے گنتا رہتا ہے۔‘‘
میری خالہ سے خاں صاحب کی بیوی نے کبھی ایسی باتیں نہیں کی تھیں، انھیں تو یہ کسی صورت سے معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ خاں صاحب کی بیوی اپنے شوہر کی بےحیائی چھپانے کے لیے آئندہ کے اخلاقی جرموں کو ابھی سے اپنے سر لے رہی ہیں اور وہ بہت خفاہوئیں۔
’’سنو بہن، میرے بس کا جو کچھ ہے وہ میں کر رہی ہوں، اگر تمہاری ہوس اسے کم سمجھتی ہے تو جو چاہے کرو، میں اس سے دست بردار ہوتی ہوں۔‘‘
خاں صاحب کی بیوی تھوڑی دیر تک روتی رہیں، اس کے بعد اٹھ کر چلی گئیں۔ رات کو انھوں نے خاں صاحب سے کہا، ’’بی بی سو روپے نقد اور ایک ہزار کا مہر باندھنے پر تیار ہیں، مگر نکاح کے بعد۔‘‘ خاں صاحب نے سرہلاکر جواب دیا، ’’شادی پر سوروپے دیے تو کیا دیے، اور ہزار کا مہرکون شریف زادی قبول کرے گی۔‘‘ خاں صاحب کی بیوی نے ہمت کرکے جھوٹ بولا تھا سو وہ بھی بے سود رہا۔ اب وہ چادر میں منہ لپیٹ کر رونے لگیں اور روتےروتے سوگئیں۔
دوسرے دن انھوں نے میری خالہ سے جاکر کہا کہ خاں صاحب نے انھیں قائل کردیا ہے اور جو خالہ مناسب سمجھیں وہیں کریں۔ میری خالہ کو بہت تعجب ہوا کہ خاں صاحب یک بارگی اس قدر راضی برضا ہوگیے اور بیوی ہوس کے پھیر میں پڑگئیں، لیکن انھوں نے اس مسئلے پر زیادہ غور نہیں کیا۔ خالہ سے گفتگو میں خاں صاحب کی بیوی نے بہت دنوں تک سکینہ کی شادی کا سوال نہیں چھیڑا، مگر خاں صاحب سے ان کی روزمرہ لڑائی ہوتی رہی۔ خاں صاحب خوشی سے توکبھی اپنی لڑکی تیس روپے کےنوکر سے نہ بیاہتے، لیکن یہ ممکن تھا کہ ان کے ہاتھ بندھ جائیں اور عین موقع پر وہ کچھ نہ کرسکیں۔ اسی کی خاں صاحب کی بیوی کوشش کر رہی تھیں۔ ایک دن انھوں نے خاں صاحب سے کہہ دیا کہ وہ سب کچھ طے کرچکی ہیں اور عنقریب شادی کی تاریخ مقرر ہونے والی ہے۔ اب اگر خاں صاحب نے دخل دیا تو بڑی فضیحت ہوگی۔
خاں صاحب نے اس کا کچھ جواب نہ دیا، وہ بھی غافل نہیں بیٹھے رہے تھے۔ انھیں ایک نواب کی خبر ملی تھی جو عیاشی کرتے تھے اور قرض بھی لیتے تھے۔ خاں صاحب ان کے مصاحب بن گیے۔ موقع پاکر بہت اچھے نرخ پر کچھ قرض بھی دے دیا۔ جب بیوی سے یہ اطلاع ملی کہ سکینہ کی شادی ہونے والی ہے تو اس بے چاری کابھی انھوں نے فیصلہ کردیا۔ ایک روز شام کو جب ان کی بیوی گھر پر مصروف تھیں تو وہ میری خالہ کے یہاں پہنچے۔ سکینہ کو رات بھر کے لیے گھر لے جانے کی اجازت چاہی اور اسے یکے پر بٹھاکر لے گیے۔
رات کو وہ اکیلے میں گھر پہنچے تو کھانےمیں کچھ دیر ہوگئی تھی۔ بیوی نے انھیں دیکھتے ہوئے جلدی جلدی کھانا نکالنا شروع کیا مگر بجائے کھانے کے لیے بیٹھنےکے وہ دیا اندر اٹھالے گیے اور گرہ سے نوٹ نکال کر گننے لگے۔ جب گن چکے تو بیوی سے کہا، ’’دیکھ تو کہہ رہی تھی کہ سکینہ کی شادی سےہم کو کیا مل سکتا ہے، پانچ سو روپے نقد اور دس ہزار کامہر لکھوالایا ہوں اور کسی کی کیا مجال ہے کہ کچھ کہے؟ اپنے سامنے نکاح کرایا اور چار گواہوں کے دستخط ہیں۔‘‘
بیوی کے ہاتھ سے کفگیر گرپڑا، ان کاسرچکر کھانے لگااور وہ وہیں پتیلیوں کے بیچ میں لیٹ گئیں۔ خاں صاحب نے نہایت اطمینان سے کھانا نکالا، کھایا اور حسب معمول ٹانگیں پھیلا کر پیٹھ کے بل لیٹ گئے اور حمد و نعت کی نظمیں پڑھنے لگے، آج وہ معمول سے زیادہ مطمئن تھے۔ خدا کی نعمتوں کا بہت شکریہ ادا کیا، کائنات کی گلکاریوں کی بہت تعریف کی اور جب نیند نے ان کی آنکھیں بند کیں تو ان کی زبان پر یہ شعر تھا،
ترا نام قہار، جبار ہے
مرا نام خاکی گنہ گار ہے
مجھے یہ نہیں معلوم کہ ان کی بیوی کا اس کے بعد کیا انجام ہوا، میری خالہ کوانھوں نے پھر کبھی اپنی صورت نہ دکھائی اور اس کے تھوڑے دن بعد ہی میری خالہ کابھی انتقال ہوگیا۔ مگر خاں صاحب اسی طرح محلے پر حاوی رہے۔ ان کے آخری کارنامےنے ان کے وقار کو بہت بڑھادیا تھا۔ لوگ انہیں اور زیادہ جھک کر سلام کرتے تھے۔ مسجدمیں اور زیادہ پابندی سے نماز ہوتی تھی۔