نیا مکان
انسان کو خدا اسی وقت یاد آتا ہے جب اس پر کوئی آفت نازل ہوتی ہے۔ ایوب خاں تعلقہ دار کے پیر اسے کئی برس سے سمجھا رہے تھے، لیکن اس نے اپنی زندگی کاڈھنگ بدلنے کاارادہ اسی وقت کیا جب اس کی جوان لڑکی اور دس برس کا لڑکا ایک ہی ہفتے کے اندر انتقال کرگیے اور اسے اپنی ڈاڑھی میں سفید بال نظرآنےلگے۔
’’نئی زندگی‘‘، ’’نیا مکان‘‘ اس نے اپنے دل میں سوچا۔ ’’جس گھر میں سات پشتوں سے عیاشی ہو رہی ہو وہاں ایک اللہ والا کیسے بسر کرسکتا ہے۔ یہاں رہا تو میں دن بھر میں اپنے نیک ارادے بھول جاؤں گا۔‘‘
پرانے مکان میں اس نے رات گزارنا بھی پسندنہ کیا، فوراً ایک کوٹھی کرایے پر لی اور خاندانی گھر اپنی آخری ’’ساقی‘‘ نجیاکو بحش دیا۔ نجیاکو اب اپنی صورت شکل پر اتنا بھروسہ بھی نہ رہاتھا۔ وہ خوشی سے اس پر راضی ہوگئی اور مچھلی کو جال سے چھوڑ دیا۔
ایوب خاں کا نیا مکان بننے لگا، اس کے دل پر دوزخ کا خوف طاری تھا، مگر جب نماز پڑھتے پڑھتے ٹانگیں تھک جاتیں تو جی بہلانے کے لیے وہ اپنے نئے مکان کو دیکھنے چلا جاتا۔ مکان بنتے اور بڑھتے دیکھ کر اسے ایسامعلوم ہوتا کہ جیسے اس کی دعائیں قبول ہو رہی ہیں، اور اس کے کندھوں سے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہوتا جاتا ہے۔ مکان اور اس کی روحانی زندگی میں ایک رشتہ سا پیدا ہوگیا جس پر اسے اکثر تعجب ہوتا تھا۔ لیکن وہ اسے کبھی نہ سمجھ سکا۔
مکان کا بنوانا اس نے اپنے مختار محمد میاں کے سپرد کیا اور وہ روز جاکر اس سے کہتا تھا کہ جتنی جلدی ممکن ہو مکان تیار کرادے،’’محمد میاں روپے کا بالکل خیال نہ کرو، جتنے مزدور ملیں اس پر لگادو، ضرورت ہو تو قرض لینے پر تیار ہوں۔ میرا ارادہ اب سیدھی سادی زندگی بسر کرنے کا ہے۔ جتنا بھی قرض ہو سب ادا ہوجائے گا۔ محمد میاں تم پھرتی سے کام کراؤ، مزدور بہت سے لگادو، میں نئے مکان کی ترس میں مرا جاتا ہوں۔‘‘
ہر شام کو ایوب خاں اور محمد میاں میں وہی سوال و جواب ہوا کرتے تھے۔
’’ہاں تو چھتیں۔۔۔؟‘‘
’’حضور بس۔۔۔ پندرہ روز ہیں۔‘‘
’’اور دیواروں کی لیپ پوت؟‘‘
’’اس میں بھی کچھ زیادہ وقت نہیں لگے گا۔‘‘
’’محمد میاں ذرا جلدی کروائیے۔ آپ تو ہر روز بس وہی پندرہ دن کا قصہ سناتے ہیں۔‘‘
’’جی ہاں حضور۔۔۔ اب تو کچھ دیر نہیں ہوگی۔‘‘
یہ سوال وجواب مختار کی کوٹھری کے سامنے ہواکرتے تھے۔ ایوب خاں روز بے صبری میں اپنی چھڑی سےایک خاص اینٹ کے ٹکڑے کو توڑنے کی کوشش کرتا۔ اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر موٹر کی طرف چلاجاتا۔
ایک دن جب ایوب خاں دیکھ بھال کے لیے آیا تو مختار نے کہا، ’’حضور اب نواب صلح گنج کی نئی کوٹھی تیار ہوگئی، وہاں کے چند مستریوں اور مزدوروں کو میں نے رکھ لیا ہے۔ مستری اچھے ہیں اور اب کام بھی تیز ہوگا۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
دونوں مکان کا چکر لگانے لگے۔ کل اور آج کا فرق مختار بڑھاوے کے ساتھ بتارہا تھا۔
’’حضور یہ نئے مستری ہیں۔‘‘
مستری اٹھے اور جھک کر سلام کیا۔
’’حضور اچھے تو ہیں۔۔۔؟ ایک مستری نے پوچھا۔ایوب خاں نے اس کا کچھ جواب نہیں دیا، اس کی نظر اور توجہ دوسری طرف تھی۔۔۔ مستریوں کے پاس ایک جوان لڑکی کھڑی تھی۔ اس نے بجائے آداب بجالانے کے ایوب خاں کی طرف غور سے دیکھا اور اس کے منہ پر کچھ مسکراہٹ سی آگئی۔ ایوب خاں کا بدن کانپ گیا، چہرہ لال ہوگیا۔
’’حضور مستری شکایت کرتے ہیں کہ یہ چونا خراب ہے میرے خیال میں کسی اور ٹھیکے دار سے معاملہ کرنا چاہیے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
ایوب خاں مختار کی تقریروں کے جواب میں صرف ہاں کرتا رہا۔ مکان کو بھی وہ اچھی طرح نہ دیکھ سکا۔ جس طرف وہ دیکھتا اس لڑکی کی شوخ آنکھیں اس کی نظر کا مقابلہ کرتیں اور اس کے کان میں کہیں سے ایک آواز آتی، ’’حضور اچھے تو ہیں؟‘‘ ایوب خاں سرجھکالیتا، اگرچہ اسے معلوم تھا کہ وہ لڑکی اور مستری سب اپنے کام میں مشغول ہیں۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا، طبیعت پر قابو بالکل نہیں رہا، شراب پینے سے اسے اختلاج کی شکایت ویسے بھی ہوگئی تھی۔ اس نئے واقعے نے جو حالات اور جذبات اس کے دل میں پیدا کیے تھے، ان کے جھونکوں میں وہ ایک تنکے کی طرح ادھر ادھر چکر کھارہاتھا۔
لیکن ان خیالات اور جذبات کی اصلیت کیا تھی؟ ایوب خاں کئی مرتبہ عاشق ہوچکا تھا۔ حسن اور حسینوں کے انداز کو وہ خوب سمجھتا اور پہچانتا تھا۔ کیا اسی شیطان نے ایک نیا روپ لے کراس پر حملہ کیا تھا؟ نہیں یہ عشق نہیں تھا، یہاں نہ حسن تھا نہ طلب۔ گھر پہنچتے پہنچتے ایوب خاں کو بالکل یقین ہوگیا تھا کہ وہ عاشق نہیں ہوا ہے۔ مگر پھر یہ گھبراہٹ کیسی؟ یہ لاچاری کیوں؟
گھر پہنچتے ہی ایوب خاں نے دورکعت نماز پڑھی، خدا کی یاد میں وہ کبھی اتنا نہ ڈوبا تا جتنا اس نماز میں اور یہ عجیب بات تھی کہ ہر دم اس نوجوان مزدورنی کی شوخ آنکھیں اسے تکتی رہیں، اس کادل دھڑکتا رہا، طبیعت کچھ پریشان رہی لیکن عبادت میں کوئی فرق نہ ہوا، خدا خفا نہ ہوا۔ وظیفے کے بیچ بیچ میں وہ خوشی کی آہیں بھرتا جاتا تھا۔ آنکھوں میں آنسو آرہے تھے، اس مریض کی طرح جو کسی لمبی بیماری سےاچھا ہوکر اپنی عافیت کی خوشی منارہاہو۔
عجیب بات ہے۔۔۔ عجیب بات ہے۔۔۔ اس کے سوا ایوب خاں کے منہ سے کچھ نہ نکلا۔
سویرے جب وہ سوکر اٹھا تو اپنے آپ کو اس نے ایک دوسرا آدمی پایا۔ وہ سادہ لباس جسے وہ روز نماز اور وظیفے کی زنجیروں کی ایک کڑی اور اپنے لیے ایک سزا سمجھتا تھا، اسے بہت پسند آیا۔ نوکر جب ناشتہ لایا تو اس سے وہ بہت پیار سے بولا۔اس طرح کہ نوکر گھبراگیا کیونکہ وہ ایک سوکھا چہرہ اور سرخ آنکھیں دیکھنے کا عادی تھا۔ دوچار لوگ ملنےآئے وہ بھی خوش ہوئے اور یہ رائے لے کر واپس گیے کہ تعلقہ دارصاحب واقعی اللہ والے ہوگیے ہیں۔ ایوب خاں جب مکان دیکھنے گیا تو اس نے بجائے مختار کے ساتھ گھومنے کے مزدوروں کے ساتھ باتیں کرنا شروع کیں، بالکل اس طرح گویا کہ وہ خود بھی مزدور ہے۔ ایک بڈھا مستری جسے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا، اسے اس دن بہت پسند آیا، یہاں تک کہ وہ اس کے پاس بیٹھ گیا اور بے تکلفی سے گفتگو چھیڑدی۔
’’بھئی تم کیا آج سے کام کر رہے ہو۔۔۔؟‘‘
’’ناہیں ہجور، ہم تو بہت دنن سے ہیاں ہن۔‘‘مستری نے جواب دیا۔
’’میں تو تمہیں آج ہی دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’ہجور، گریب آدمن کوکون دیکھت ہے۔ آدمی کی کابخرآوت ہیں۔‘‘ مستری نے مسکراکر کہا۔
’’ہاں بھائی، ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ ایوب خاں بجائے اس طعنے پر ناراض ہونے کے اور خوش ہوا، اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے اور مستری کے درمیان جو فاصلہ ہے اسے کم کرے، جو دیوار ہے اسے گرادے۔ پہلے اگر وہ اس کی کوشش کرتا تو اس کی سمجھ کام نہ دیتی۔ آج اسے یہ بات بہت آسان معلوم ہو رہی تھی۔
’’ہاں بھئی ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، ’’تم یہاں کوئی ایک مہینے سے کام کر رہے ہو اور مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ تم ہو بھی یا نہیں۔۔۔ لیکن اب دھیرے دھیرے میری طبیعت بدل رہی ہے، اب مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے رسولؐ نے کیوں فرمایا ہے کہ امیروں کے لیے جنت میں جانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکلنا۔ میں نےاپنی جوانی بڑی بری طرح گزاری ہے۔ ابھی کچھ دن ہوئے جب میرے دو بچے ایک ہی ہفتے کے اندر مرگیے۔ تب مجھے خیال آیا کہ خدا بھی ایک چیز ہے اور جو خدا کو بھول جاتا ہے اس کا نقصان ہی نقصان ہے۔‘‘
’’ہاں ہجور، جب ساری دنیا کھدائی کی ہے تو کھدائے کو بھولنے سےدنیا کیسے ملے؟‘‘مستری نے اطمینان سے کہا۔
’’ہاں ٹھیک کہتے ہو۔۔۔ اس لیے میں نے ارادہ کرلیا ہے کہ اپنا پرانا مکان جہاں میں امیروں کی طرح رہتاتھا، چھوڑدوں گا اور اس نئے مکان میں بیٹھ کر اپنےخدا کی عبادت کروں گا۔‘‘
مستری کچھ کہنا چاہتا تھا مگر رک گیا۔ ایوب خاں نے سلسلہ جاری رکھا، ’’میں اب یہاں بالکل غریبوں کی زندگی بسر کروں گا۔۔۔ غریبوں کے ساتھ رہوں گا۔۔۔ سب کادوست، سب کا بھائی۔۔۔‘‘
ایوب خاں کچھ دیر خاموش کھڑا سوچتا رہا۔ دل کی بات زبان پر اتنی آسانی سے نہ آتی۔ مستری نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کام شروع کردیا۔ لیکن دونوں کو یہ معلوم ہوگیا کہ ان میں دوستی ہوگئی ہے اور دونوں اس سےبہت خوش ہوئے۔ ایوب خاں میں اب کسی قسم کی جھجک نہیں باقی رہی۔
گھومتے گھومتے ایوب خاں اس جگہ پر پہنچا جہاں وہ نوجوان مزدورنی کام کر رہی تھی۔ جس کی آنکھوں اور مسکراہٹ نے اس میں ایک نیا جوش پیدا کردیا تھا۔ لڑکی نے ایوب خاں پر ایک سرسری نظر ڈالی اور اپنے کام میں لگی رہی، لیکن ایوب خاں کو یہ نظر بہت پیاری اور برسوں کی محبت، ہمدردی، دلی دوستی سے بھری معلوم ہوئی۔ اس نے ایک دم میں وہ ظاہر کردیا جو مہینوں کی دوستی میں نہیں بتایا جاسکتا۔ اور پھر زبان میں وہ قوتِ ادا کہاں جو نگاہوں میں ہوا کرتی ہے۔ کم از کم ایوب خاں اسے یوں ہی سمجھا۔ اس نے یہ نہیں سوچا کہ مزدورنی اس کی رازداں کیوں بننے لگی۔ ایسی بات آج اس کے دماغ میں سماہی نہیں سکتی تھی، آج وہ سب کابھائی، سب کادوست تھا۔ اسے ایک طرف سے توقع تھی کہ ہر مرد اور عورت اس سے اپنی محبت کااظہار کرے اور اس میں اسے مایوسی نہیں ہوئی۔
مستری اس سے بے تکلفی سے باتیں کرنے لگے اور ہر روز ان سے باتیں کرنے میں ایوب خاں کونیا لطف آتاتھا۔ ہر روز وہ نئے جذبات دل میں سمیٹ کر گھر واپس جاتا، جیسے لوگ کوئی قیمتی چیز بغل میں دباکر لے جاتے ہیں اور اس دولت کو اپنے خدا کے سامنے پیش کرتا۔ عبادت اس کے لیے ایک ملاقات سی ہوگئی جس کو وہ دل چسپ اور پرلطف بنانے کے لیے ہر دن نئی خبریں لاتا، نئی ہنسی ہنستا اور نئے آنسو روتا۔ مستریوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی بات سنائی دیتی جو اسے سچائی اور محبت سے بھری ہوئی معلوم ہوتی۔ اس جوان مزدورنی کی آنکھوں میں جذبات کاایک ایسا خزانہ تھا کہ ایوب خاں کے دل میں ہرروز ایک نیا ہنگامہ پیدا ہوتا اور اسے سکون اسی وقت ہوتا جب وہ عبادت میں اپنے خدا کو دل کاسارا حال سنادیتا۔
ایک روز جب مکان تیار ہوچکا تھا اور مستری اندردیواروں پر چونا لگا رہے تھے تو بڈھے مستری نے جو ایوب خاں سے بالکل آزادی سے گفتگو کرتاتھا، مسکراکر کہا، ’’کہو صاحب، اب بیاہ کب ہوئی ہے؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ہم کہا کہ پانچ کمرے ہیں۔ ان ماں کون رہی ہے؟ آپ تو دن رات نماج پڑھت ہیں۔‘‘
ایوب خاں مسکرایا اور کچھ جواب نہ دیا۔ اس کی بیوی کا انتقال کوئی پانچ سال پہلے ہوچکا تھا۔ لیکن اس زمانے میں وہ عیاشی میں ایسا پھنسا ہوا تھا کہ اسے دوسری شادی کا خیال کبھی نہیں آیا، اور نہ کوئی ایسا باپ ملا جو اسے بیٹی دینے پر راضی ہو۔ مستری کے سوال کو اس وقت تو ٹال گیا مگر دل میں یہ بات ٹھہرگئی۔ کمروں کاآخری مرتبہ گشت لگاتے ہوئے اس نے سوچا، ’’کہتا تو دراصل ٹھیک ہے۔ مکان خالی خالی سا رہے گا اور دوسری شادی میں گناہ کیا ہے، عیاشی تو میں نے چھوڑ ہی دی ہے۔۔۔ پہلی بیوی کو میں نےجو تکلیف دی ہے اس کے بدلے ایک دوسری عورت کواگر خوش کرسکوں تو۔۔۔‘‘
اسے یک بارگی اس جوان مزدورنی کاخیال آیا۔ ایوب خاں سے وہ اب اس قدر ہل گئی تھی کہ دونوں میں خوب باتیں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اس کی پہلی نگاہ کا جو اثر پڑا تھا اسے وہ کبھی نہیں بھولا اور دل میں اس معمولی مزدورنی کی بہت عزت کرتا رہا۔ آج شادی کی فکر نے اس کے تعلقات کارنگ بدل دیا۔ اس نے اپنے آپ کو بہت یقین دلانےکی کوشش کی کہ اس میں کوئی بات نہیں لیکن اس کے پیر اسے بے اختیار اسی کمرے کی طرف لے چلے جہاں وہ مزدورنی کام کر رہی تھی۔ نئے ارادوں کے ساتھ تازہ دیدار کا شوق پیدا ہوا اور ایوب خاں کی آنکھیں یہ دیکھنا چاہتی تھیں کہ مزدورنی اگر اس کی بیوی ہوئی تو کیسی معلوم ہوگی۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے مستریوں سے باتیں شروع کردیں، کچھ اپنی گھبراہٹ دور کرنے کے لیے، کچھ اس ڈر سے کہ کہیں کسی کو خیال نہ ہوجائے کہ وہ مزدورنی کو دیکھنے آیا ہے۔ لیکن ان ترکیبوں نے زیادہ دیر تک کام نہ دیا اور چند جملوں کے بعد وہ خاموش ہوگیا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے ایک نئے مکان اور نئی زندگی کی تصویر تھی، کبھی وہ دیکھتا کہ خود عبادت میں مشغول ہے اور اس کی بیوی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے کمرے میں ایک نظر ڈال جاتی ہے اور وہ مزدورنی کی طرف دیکھ کر سوچتا کہ یہ نظر کیسے ہوگی۔ کبھی دونوں کھانے پر بیٹھے دکھائی دیتے۔ بیوی مختلف چیزیں اس کے سامنےپیش کرتی ہوتی اور ایوب خاں اس مزدورنی کی طرف دیکھ کر سوچتا کہ یہ تواضع کیسی ہوگی، کبھی تخیل یہ منظر پیش کرتا کہ دونوں شام کے وقت سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ایک کا ہاتھ دوسرے کے ہاتھ میں ہے اور دونوں خاموش ہیں۔ پھر ایوب خاں اس مزدورنی کی طرف دیکھ کر سوچتا کہ یہ خاموشی کیسی ہوگی۔
مزدورنی کی حالت، اس کے انداز، اس کی محبت بھری نگاہیں، گھر کے سجانے اور زندگی کے خوش کرنے کے لیے اس سے زیادہ کس چیز کی ضرورت تھی؟ پھر دیس سے وہ روحانی لگاؤ، غریبوں سےوہ دوستی جس کا اس نے کچھ دن پہلے ہی اقرار کرلیا تھا، ان سب کے قائم رکھنے کی اور کون سی ترکیب ہوسکتی تھی؟ ایوب خاں کا جی چاہنے لگا کہ کسی طرح سے وہ کود پھاند کر اپنی موجودہ حالت سے اس زندگی تک پہنچ جائے جس کی ایک جھلک اسے ابھی نظر آئی تھی، اپنی امیدیں پوری کرے، اور دل کی بے چینی دور کرے۔ لیکن جب وہ گھر پہنچا اور کھانے کے بعد آرام کرکے نماز پڑھنا چاہی تو اسے ایک عجیب سستی سی محسوس ہوئی، جہاں وہ شوق سے جاتاتھا وہاں آج معلوم ہوتا تھا کہ کوئی زبردستی لیے جارہا ہے۔ نماز تو اس نے کسی نہ کسی طرح ختم کرلی مگر اسے اس تبدیلی پر حیرت ہوئی۔
’’آخر مجھے ہوکیا گیا؟ کیا میں اب پھر اپنے خدا سے منھ پھیرلوں گا؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے گھبراکر پوچھا مگر اس کا کہیں سے جواب نہ ملا اور آخرکار عاجز ہوکر وہ وظیفے کو چھوڑ چھاڑ کر اپنے پلنگ پر لیٹ گیا۔ واقعہ یہ تھا کہ وہ اپنی شادی کے سوچ میں تھا اور اسی جوان مزدورنی کی آنکھیں جنھوں نے اس کی عبادت ایسی رسیلی کردی تھی آج اسے اپنی طرف بلا رہی تھیں۔ ایوب خاں نے عیاشی سے توبہ کی تھی، اس طرح کی محبت سے نہیں کی تھی جو مرد اور عورت کو میاں بیوی بناتی ہے اور ان کو خوش رکھتی ہے۔ لیکن پھر خدا اور اس کے ایک دین دار بندے کے درمیان میں یہ پردہ کیسا پڑگیا؟ یہ بے گانگی کیوں کر ہوگئی؟ ایوب خاں اس وقت اپنی آئندہ زندگی کی تصویر بنانےمیں ایسا مشغول تھا کہ اس سوال پر زیادہ غور کرنے سے بچنا چاہا مگر یہ اندیشہ اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھنے لگا کہ شاید وہ زندگی جس کا وہ اب ارادہ کر رہا تھا، خدا کو پسند نہ ہو۔ جب صرف اس کےخیال نے عبادت سے جی ہٹادیا تو اس کی اصلیت کہاں پہنچائے گی۔
نتیجہ یہ ہوا کہ ایوب خاں کی طبیعت میں جھنجھلاہٹ سی پیدا ہوگئی، اس کی خیالی تصویریں سب دھواں بن کر اڑگئیں اور اس کے دماغ میں اس مسئلے پر بحث چھڑ گئی کہ اسے مزدورنی سے شادی کرنا چاہیے یا نہیں؟ اس کی اپنی رائے تو شادی کے موافق تھی لیکن پھر اس نے سوچا کہ اور لوگ کیاکہیں گے، رشتہ داروں اور عزیزوں کی زبان سے خدا بچائے، وہ تو بے گناہوں کو بھی روزسولی پر چڑھاتے ہیں۔ ایسی حرکت پر تو وہ اس کی دھجیاں اڑادیں گے،نام مٹی میں ملادیں گے۔ رشتے دار تو خیر خدا نے اسی لیے پیدا کیے ہیں، ان کو چھوڑیے۔ مزدورنی سے نکاح ہونے کی خبر سن کر کون چپ رہے گا۔ گلی گلی لوگ ہنسی اڑائیں گے، اور یہ نوکر چاکر، یہی لوگ جو اس وقت خوف زدہ اور تابع دار معلوم ہوتے ہیں، یہ بھی خوب دانت دکھائیں گے۔ مزدورنی دنیا میں سب سے بدصورت عورت بن جائے گی۔ وہ سب سےبے وقوف آدمی ، اور کیا کوئی ڈنڈا لیے لوگوں کی رائے بدلتاپھرےگا؟ ایوب خاں کے خیالات کا دیر تک یہی رنگ رہا۔ اور جب نوکر نےچائے لانے میں دیر کی تو اسے بالکل یقین ہوگیا کہ شادی کانتیجہ بڑی رسوائی اور جگ ہنسائی ہوگی۔
ساری شام اور آدھی رات تک ایوب خاں کی طبیعت پریشان رہی۔ کبھی امید نئی زندگی کو اس کے سامنے دل ربا شکلوں میں پیش کرتی تھی، کبھی لوگ اس کی حماقتوں پر ہنستے ہوئے نظر آتے تھے۔ یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ وہ عبادت میں محو ہوکر ان سب جھگڑوں کو بھول جائے کیونکہ اس پر اس کا جی کسی طرح راضی نہیں ہوتاتھا۔ آخر کار نیند نے آکر بحث ملتوی کردی۔
دوسرے دن سویرے جب نئے مکان کو دیکھنے کے لیے جانے کاوقت آیا تو ایوب خاں کا عجیب حال تھا۔ ’’ورنہ یہ مکان وغیرہ تو سب مذاق ہے۔ وہاں کوئی جاکر کیا کرے۔‘‘ مگر نئی زندگی کا مسئلہ طے نہیں ہوسکتا، اس لیے وہ دل بہلانے کے لیے چلا گیا۔مکان کے اندر مستریوں میں کسی بات پر بڑے زور شور سے بحث ہو رہی تھی۔ ایوب خاں کو دیکھتے ہی بڈھے مستری نے اس کی طرف مخاطب ہوکر کہا، ’’اور سنو میاں صاحب! وہ سندوریا بھاگ گئی، ڈیڑھ دن کی مجوری چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔‘‘
’’کون سندوریا کون؟‘‘ ایوب خاں کو اس جوان مزدورنی کا نام تو معلوم تھا، لیکن وہ یہ خبر سن کر ایسا گھبرایا کہ اس کی سمجھ میں اور کوئی سوال نہ آیا۔
’’ارے وہی صاحب، جی کی اس بگلا جیسی انکھیاں رہیں، آپ تو دی کا جانت ہیں۔‘‘
’’کیوں! کیسے بھاگ گئی؟‘‘
’’ہم کا جانن صاحب۔۔۔! ای منگل تو کہت ہیں کہ وہ عاسک ہوئی گئی رہے۔ انہن سے پوچھو۔‘‘
مستری منگل نے اطمینان سے کہا، ’’صاحب جب سے وہ ہیاں آئی رہے، تب سے یومٹھو، وہی جی کے ساتھ وہ چلی گئی ہے، وی سے روج کہت رہے کہ ہمرے پاس کانپور ماں مکان ہے، ہمرے ساتھ ہواں بھاگ چلو، ہم مجوری کربا، تم روٹی پکایو، وہ سار کاجانے، نہ مائے نہ باپ جی سے صلاح لے، کان پور کا نام سن کر وی کے ساتھ بھاگ گئی۔‘‘
’’لیکن آخر مزدوری کیوں چھوڑ گئی؟‘‘
منگل نے کچھ ناراض ہوکر کہا، ’’اب یو صاحب ہم کا جانن۔‘‘
بڈھا مستری بول اٹھا، ’’سار کہہ دہس ہوئی ہے کہ کان پور کی گاڑی آجے جات ہے، پھر کبھو نہ ملی ہے۔‘‘
ایوب خاں کا سرچکرکھانے لگا، منہ پر بیماروں کی سی مسکراہٹ آگئی، بغیر اور کچھ کہے سنے وہ گھر کے باہر نکل آیا اور موٹر میں جاکر بیٹھ گیا۔
’’بھئی گھر چلو۔‘‘ اس نےڈرائیور سے کہا، ’’ذرا گھومتے گھامتے چلنا۔‘‘
موٹر پھاٹک سے باہر نکل گیا اور ایوب خاں نے پیچھے پھر کر نئے مکان پر نظر بھی نہ ڈالی۔