گھبرائے ہوئے لوگ ہیں انجانے سے ڈر سے
گھبرائے ہوئے لوگ ہیں انجانے سے ڈر سے
ہر ایک بشر خوف زدہ دوجے بشر سے
دوبھر ہے یہاں آج تو باہر ہی نکلنا
محفوظ نہیں کوئی زمانے کی نظر سے
انجانی ڈگر لگنے لگی اب مجھے آساں
کچھ لوگ ابھی لوٹ کے آئے ہیں سفر سے
بے درد پیا جیسا تو کیوں ابر بنا ہے
کب سے ہی لگا آس زمیں بیٹھی تو برسے
اتنی تو اٹھا لے او نمن اپنی خودی کو
دشمن بھی ترا کرنے کو یاری تری ترسے