گردش میں ستارے ہوں جس کے دنیا کو بھلا کب بھاتا ہے

گردش میں ستارے ہوں جس کے دنیا کو بھلا کب بھاتا ہے
وہ لاکھ پٹک لے سر اپنا پر جگ سے سزا ہی پاتا ہے


مفلس کا بھی جینا کیا جینا جو گھونٹ لہو کے پی جائے
جتنا وہ جھکے جگ کے آگے اتنی ہی وہ ٹھوکر کھاتا ہے


اے درد چلا جا اور کہیں اس دل کو بھی تھوڑی راحت ہو
کیوں اٹھ کے غریبوں کے در سے مجھ کو ہی صدا تڑپاتا ہے


اتنا بھی نہ اچھا وحشی پن دولت کے نشہ میں پاگل سن
جو ہے نہ کبھی ٹکنے والی اس چیز پہ کیوں اتراتا ہے


بھیجا تھا بنا جس کو رہبر پر پیش وہ رہزن سا آیا
اب کیسے یقیں اس پر کر لیں جو رنگ بدل پھر آتا ہے


مانا کہ جہاں نایاب خدا کاریگری ہے اس میں تیری
پر دل کو منائیں کیسے ہم رہ کر جو یہاں گھبراتا ہے


یہ شوق نمن نے پالا ہے دکھ درد پروتا غزلوں میں
بے درد زمانے پر ہنستا مظلوم پے آنسو لاتا ہے