غزل کہتی نہیں ہے بس لب و رخسار کی باتیں
غزل کہتی نہیں ہے بس لب و رخسار کی باتیں
بیاں کرتی ہے وہ عشق و وفا اور پیار کی باتیں
تکلم کی نہیں محتاج اور نہ لب کشائی کی
اشاروں میں بیاں کرتی ہے حال زار کی باتیں
کہیں کشتی کے ہچکولے کہیں امید ساحل کی
کبھی موجوں کے نغمے ہیں کبھی منجدھار کی باتیں
لطافت اس میں پھولوں کی تو کانٹوں کی چبھن بھی ہے
کہیں گھنگرو کی آوازیں کہیں تلوار کی باتیں
یہ حق کی ترجماں منصف رفیق راز داں سب کچھ
جنوں کی انجمن میں پھر دل بیدار کی باتیں
اسی میں جام جم جام و سبو ساقی و مے خانہ
یہ عابد کا عمل اور حسرت مے خوار کی باتیں
قلم کی نوک پر تابشؔ کئی جذبے مچلتے ہیں
ورق کو راز داں کر لیں کریں اسرار کی باتیں