بنائے حضرت انساں نے اس دیں کے کئی مدفن

بنائے حضرت انساں نے اس دیں کے کئی مدفن
ملی منکر کو آزادی لگے معروف پر قدغن


ہوئے ہیں منبر و محراب ہی تفریق کے مرکز
زبانوں نے پہن رکھی ہے خستہ حال سی اترن


ملوکیت عبارت خون سے آہوں سے اشکوں سے
حکومت کے اندھیروں کو خلافت ہی کرے روشن


تجھے تھا فخر کہ شعلوں پہ تیری حکمرانی ہے
مگر یہ دیکھ چنگاری جلاتی ہے ترا خرمن


ان ارباب حکومت کا کوئی رشتہ ہے قاتل سے
وطن سے جب وہ نکلے کوچۂ قاتل بنا مسکن


خوشی تھی ان کو یہ افتاد ان پر تو نہیں گزری
ہٹی چلمن تو پائی ہے وہی آندھی لب روزن


یہی ہے منہج نبوی یہی کار نبوت ہے
کہ انساں کی غلامی سے رہے آزاد ہر گردن


امیدیں جستجو خواب و تمنا کی حقیقت کیا
اگر تو بے عمل بے حوصلہ پھر یہ بھی سر افگن


اے تابشؔ تو نفاذ حکم ربانی اگر چاہے
تو ہو آغاز حکما سے طریقہ ہے یہی احسن