گردش ایّام
’’نکی، ببلو! ‘‘غزالہ نے دوسری بار پکارا۔
اس پکار میں غصّے کے ساتھ ایک میسج بھی تھا۔
’’ممّا! آرہے ہیں نا۔۔۔‘‘
دادی کے بستر پر بڑی بہن کے ساتھ بیٹھا ببلو قدرے توقف کے بعدبولا۔اس کے لہجے میں بھی کھیج اور بیزاری گلیر ملی تھی۔
بیگم شرجیل احمدبچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں، ’’جاؤ بیٹے! ہوم ورک کر لو۔میں مہمان نہیں کہ چلی جاؤں گی۔اس واقعے کوپھرکبھی پورا کردوں گی۔اس وقت یاددلا دینا کہ کہاں تک سن چکے ہو۔‘‘
’’ دادی! آج سنڈے ہے نہ۔ہم لوگوں نے صبح ہی ہوم ورک فِنش کر لیا ہے۔ یہ ہمارے کھیلنے اور ٹی وی دیکھنے کا ٹائم ہے۔ کارٹون دیکھنے سے زیادہ مزہ تو آپ کے پاس رہنے اور آپ کی باتوں سے آتا ہے۔ دادی! ریئلی آپ بہت سوئیٹ ہیں۔ ہم لوگوں کو اچھی اچھی باتیں بتاتی ہیں،اسٹوری اور انسیڈنٹ سناتی ہیں۔ مما تو کلاس ٹیچر جیسی ہیں۔۔۔ پلیز!جلدی سے بتائیے نہ! ہمارے پاپا کو دادا نے سون پور میلے میں صرف خرگوش اور میرے مٹھو جیسا طوطا دلایاتھا؟‘‘
نکّی بھائی کا ہاتھ پکڑ کے بولی،’’چلونہ!‘‘
ببلوبہن کا ہاتھ جھٹک کربولا،’’دادی!اگرپاپا کے ساتھ میں بھی گیا ہوتا تو ضد کر کے دادا سے ہاتھی کا بچہ خریدواتا۔‘‘
نکّی ہنستے ہوئے بولی، ’’تم پاپا کے ساتھ نہیں جا سکتے تھے۔‘‘
’’کیوں نہیں جا سکتا تھا؟ میں جب رونے لگتا، تب دادا مجھے ضرور لے جاتے۔‘‘
’فولش!اس وقت پاپا، بچہ تھے۔ ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ شادی کے بعدنہ بچہ پیدا ہوتا ہے۔ہے نہ! دادی؟‘‘
بیگم شرجیل احمد پوتی سے آنکھیں چراتے ہوئے سوچنے لگیں کہ وہ اس عمرمیں بڑوں کا کہا سچ مان گئی تھیں کہ بچہ میلے اور اسپتال سے خریدا جاتا ہے۔ انھیں دکھ پہنچا کہ ٹی وی اور انٹر نِٹ نے بچوں سے بچپن اور ان کی معصومیت چھین کر انھیں بالغ الذّہن بنا دیا ہے۔ وہ پُچکار تے ہوئے بولیں، ’’جاؤ بیٹا! ممّی بلا رہی ہیں۔‘‘
ببلوان سنی کرتے ہوئے بولا،’’دادی!ایک سو روپیہ لے کر ایک دن کلاس ٹیچر پورے کلاس کو زو گھمانے لے گئی تھی۔ ہاتھی کے پاس کھڑا آدمی ایک مٹھّی چنا دے کر کہتا تھا ، اس میں سکّے رکھ کر کھِلائیے، یہ سکے نہیں کھائے گا۔جب کوئی سکّہ ڈال کر ہاتھی کو چنا کھلِاتا، تب وہ منہ میں چنا رکھ کر سکّے اسے دے دیتا اور وہ سکّہ دکھاکر جیب میں رکھ لیتا تھا۔ دادی! وہ ایک روپیہ لے کر ٹنّو منّو ہاتھی سے سیک ہینڈ بھی کرواتا تھا۔ میں نے بھی سیک ہینڈ کیا تھا۔ مجھے خوب گُد گُدی لگی تھی اور ہاتھ میںاس کا تھوک بھی لگ گیا تھا۔ دادی! اگر ضد کرکے پاپا نے ہاتھی کا بچہ خریدو ایا ہوتا، تو آج وہ بڑا سا ہوجاتانہ؟ ۔۔۔‘‘
نکّی قطع کلام کرتے ہوئے بولی،’’اچھا ہوا ، نہیں خریدایا۔‘‘
’’کیوں اچھا ہوا؟‘‘ببلو نے معصومیت سے پوچھا۔
’’اسے رکھتے کہاں؟پارکنگ میں؟یامِٹھّو کی طرح پنجرے میں؟‘‘ نکّی نے الٹے سوالا ت جڑ دئیے۔
ببلوافسردہ ہو گیا ۔ بیگم شرجیل احمد نے بچوں کو شفقت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچا کہ ان کی محبت نے ہی انھیں باندھ رکھا ہے۔
نکّی کو بھی باتوں میںمزہ آرہا تھا۔لیکن اسے معلوم ہے، ممّی تیسری بار پُکارتی نہیں، سزا دیتی ہیں۔ اگر وہ چلی گئی تو ببلوکی خوب پٹائی ہوگی۔ وہ بھائی کاہاتھ پکڑکے کھینچتے ہوتے ہوئے بولی، ’’اب چلو ببلو! ممّا دوسری بار پُکار چکی ہیں۔ وہ دادی کے پاس پھر نہیں آنے دیں گی۔۔۔‘‘
قدموں کی آہٹ پاکر بچے گھبرائی بلّی کی طرح کمرے سے نکل گئے۔
تھوڑی دیر بعد نکّی دادی کے بستر پر پُرانے اخبار کا ایک صفحہ بچھاکر لوٹ گئی۔پھر وہ ایک سجایا پلیٹ رکھ کر پانی لانے چلی گئی۔ بیگم شرجیل احمد کی نگاہیں جائزہ لینے لگیں۔ تھوڑا سا چاول، چھوٹے چھوٹے خانوں میں دال، سبزی، سلاداور چاول کے اوپر دو روٹی ، تلی ہوئی مچھلی اورپاپڑکا ایک ایک ٹکڑا رکھا تھا۔انھوں نے سوچاکہ ایسی پلیٹ سستے ہوٹلوں میں استعمال ہوتی ہے، جس میں ایک ساتھ کئی چیزیں پروسی جاتی ہیں۔انھیں لگاکہ یہ کسی سڑک چھاپ ہوٹل کا نانویج تھال ہے۔
بیگم شرجیل احمدکے ذہن میں گزرے ایّام گردش کرنے لگے۔ ایک منظراز خود رواں ہو گیا۔ وہ بھی شوہر اور بیٹے کے ساتھ اسی طرح ہنستی بولتی ہوئی کھاتی پیتی تھیں۔وہ چُن چُن کرکلیجی، گُردے اور اچھی بوٹیاں نکال کر بیٹے کو کھِلاتے اور نلّی کا گودا جھاڑ کر اس کی زبان پر رکھتے تھے۔ انھیں چھوٹی مچھلی پسند تھی لیکن جب تمثیل چاول روٹی کھانے لگا، تب وہ بڑی مچھلی لاتے اور کانٹا نکال کر اسے کھِلاتے ۔ خصّی کا مغز اور مچھلی کا سیرا انھیں بہت پسند تھا، جس کا بیشتر حصّہ وہ بیٹے کو کھِلادیتے تھے ۔ اس منظر کو ماں کی نظر سے دیکھ کروہ خوش ہوجاتی۔ لیکن جب وہ بیوی کی نگاہ سے دیکھتی، تب ان کا دل کچوٹنے لگتا تھاکہ وہ خود ٹھیک سے کھا نہیں پاتے تھے۔وہ اس وقت مسکرانے لگتی، جب وہ لقمہ اپنے منہ میں رکھنا چاہتے اور بیٹا منہ کھول دیتا، تب وہ ہاتھ روک کے تھوڑا سا اس کے منہ میں ڈال کر بچا نوالہ اپنے منہ میں رکھ لیتے تھے۔ ایک باراس نے کہا تھا، ’’لائیے! اب میں کھِلاتی ہوں۔‘‘ تب وہ بولے تھے ، ’’جمیلہ بیگم! بڑھاپے میں ہمارا بیٹا بھی اسی طرح ہمیں کھِلائے گا۔‘‘
وہ مسرور ہوکر ان کے خوابوں اور ارمانوں کو پتنگ کی طرح اٹھان لیتے ہوئے دیکھنے لگی تھی۔
ذہن میں رواںمنظر ازخود بدل گیا۔بیگم شرجیل احمدکی نگاہوں میں گاؤں کی ایک پڑوسن مجسّم ہو گئی۔ وہ تام چین کی رِکابی میں سب کچھ چاول پر لاد کر سائل کو کھانا دیتی تھی۔ وہ بے چارہ حکمت لگاکر کھاتا تھا۔ کھانا کم پڑجاتا تو وہ شرم سے مانگ نہیں پاتااور زیادہ ہوتا، تب وہ کسی طرح اسے حلق کے نیچے اتار کر رِکابی گلاس دھوکر لوٹاتا تھا۔اس عورت نے فقیرکے لئے برتن الگ کر رکھا تھا۔
غزالہ نے بھی ان کے کھانے پینے کا برتن، باتھ روم، غسل کی بالٹی، جگ ، تولیہ اور صابن وغیرہ الگ کر رکھا ہے۔وہ اپنے کپڑے واشنگ مشین میں دھوتی ہے اوروہ غسل سے پہلے اور بعدمیں اپنی اترن خود دھوتی ۔
بیگم شرجیل احمدہمیشہ سوچتی ہوئی ہر لقمہ کو تادیر چباتیں۔ گویا منہ میں چبھتے تذلیل کے نوالے کو وہ رقیق بناکر گھونٹ لینا چاہتی ہوں۔
انھیں یاد ہے، ایک بار انھوں نے نکّی سے پلیٹ مانگ کر کھانا، چمچ سے نکال کر واپس کیا تھا، جِسے کتّے کو کھِلایا گیا۔اسی دن سے وہ بچا کھانا خودہی ٹھکانے لگادیتی ہیں۔
غزالہ گاؤں کے اسکول کی پڑھی لکھی اورتمثیل احمدایم بی اے ہے۔ پھر بھی گھر کی باگ ڈور اسی کے ہاتھوں میں ہے۔ اس نے ہوسٹل سُپرٹنڈنٹ کی طرح کھانے پینے، پڑھنے سونے اورٹی وی دیکھنے کا وقت متعین کر رکھا ہے۔ گھڑی کی سوئی سب کو متحرّک رکھتی ہے۔وہ زبان سے کم، آنکھوں سے زیادہ کام لیتی ہے۔ اس کا حکم حتمی اور اشارہ واضح ہوتا ہے۔ ٹی وی دیکھتے وقت وہ ٹی وی اور اے سی کا ریموٹ اپنے قبضے میں رکھتی ہے۔ دوپہراور رات آٹھ سے نو بجے کا وقت اس کے سیریل دیکھنے کاہے۔
بیگم شرجیل احمدحیران تھی کہ تھپک تھپک کر سُلائی خواہش آج پھر مچلنے لگی ہیکہ وہ بھی ڈائننگ ٹیبل پر جابیٹھیں، جہاں ان کا بیٹا ،بال بچوں کے ساتھ ہنس بول کر کھا نے والا ہے۔
پانی بھرا گلاس رکھ کرگُم صُم کھڑی نکّی سوچ رہی تھی کہ دادی بھی ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھاتیں تو بہت اچھا لگتا۔ جس طرح پاپا، چُن چُن کر اچھی اچھی چیزیں ممّی کی پلیٹ میں رکھتے ہیں، میں بھی دادی کی پلیٹ میں رکھتی ۔۔۔
’’نکّی!پاپا تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔‘‘غزالہ کی پُکار میں بیزاری اورپھٹکار گھُلی ملی تھی۔
’’چِپّو!جاتی ہے تو چِپک جاتی ہے۔‘‘وہ بھُن بھُنائی۔
’’دادی! کچھ لینا ہو تو مانگ لیجئے گا۔‘‘یہ کہہ کر وہ بھاگتی ہوئی ڈائننگ ٹیبل پر جابیٹھی۔
کھانا کھاتے ہوئے نکّی کو وہ دن یاد آگیا، جب دادی نے ایک ایک لقمہ ببلواور اس کے منہ میں ڈال دیا تھا۔ منہ چلاتے کمرے سے نکلتے دیکھ کرممّا نے منہ کھلواکے دیکھا تھا۔ پھر انھوں نے چبائے لقمے کو اگلواکر گالوں پر تمانچے رسید کر کے زبان کاٹ دینے کی دھمکی دی تھی۔ اس دن کے بعد دادی نے پھر کبھی ان کے منہ میں کچھ بھی نہیں رکھا۔
ایک دن دوپہر میں بیگم شرجیل احمد ماضی کی سنگلاخ وادی میں داخل ہوگئیں۔ وہ سخت تپش والی دوپہر تھی۔غزالہ بچوں کے ساتھ کھاناکھا کر سو رہی تھی۔ انھوں نے فریج سے بوتل نکال کر پانی پی لیا تھا۔ شام کے وقت غزالہ نے فریج کی صفائی کی اور آفس سے آتے شوہر کے کان بھرے۔ تمثیل الٹے پاؤں بازار گیااور پانچ لیٹر کا واٹر پاٹ اور تِپائی لے کر لوٹا۔وہ پانی بھر کے پاٹ تِپائی پر رکھ کر بولاتھا، ’’امّی! اب آپ کو دقّت نہیں ہوگی۔نکّی ٹھنڈا پانی بھردیا کرے گی۔ بارہ گھنٹے تک پانی گرم نہیں ہوگا۔‘‘ پھر وہ فوراً کمرے سے نکل گیا تھا اور وہ سوچنے لگی تھی کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔
اچھے بُرے واقعات و حادثات ذہن میں محفوظ رہتے ہیں۔ ذہن، ٹَچ اسکرین موبائل سا ہوتا ہے، جو چاہے، ان چاہے لمس سے متحرّک ہوجاتا ہے۔ ان دنوں بیگم شرجیل احمد کا ذہن آٹوپِلے موڈ میں رہتاہے۔ایک رات تذلیل کا دوسر ا فوٹیج از خود رواں ہوگیا۔
اس دن بھی گرمی اپنے شباب پر تھی۔پنکھے کی ہوا لو جیسی لگ رہی تھی۔وہ اٹھ اٹھ کر پانی پیتی پھر بھی تشنگی برقرار رہتی۔ تیسرے پہر کی امس سے ان کاجی بگڑا جا رہا تھا۔ شام کے وقت میاں بیوی مجبوراً بچوں کو گھر پر چھوڑ کر کسی کام سے باہر نکلے تھے۔وہ نماز پڑھ چکی، تب بچے آدھمکے۔ماں کی غیر موجودگی نے انھیں نِڈّر بنادیا تھا۔ دونوں ایک ایک ہاتھ پکڑکے انھیں کھینچتے ہوئے ماں کے کمرے میں لے گئے تھے۔
غزالہ کا کمرہ صاف ستھرا ، سجا سنورااور دلکش تھا۔متصل بالکونی میں خوش نما پھولوں کے گملے رکھے تھے۔ دیوار میں چھوٹا سا ساؤنڈ بکس آویزاں تھا۔ ایک طرف کُرسی اور ٹی ٹیبل لگا تھا۔ وہ گرمی کی شام اور جاڑے کی صبح یہاں بیٹھ کر چائے پیتی ہوئی نغمے سنتی ہے۔ اس نے سنگار دان کو مخصوص زاویے سے لگا رکھاہے تاکہ وہ کمرے میں رہ کر بھی باہر نظر رکھ سکے۔
انھیں بستر پر بِٹھاکر نکّی نے پاپا، ممّی کا تکیہ پیٹھ کے پیچھے لگادیا تھا اور ببلو نے جھومر روشن کرکے ٹی وی آن کر دیا۔پھر دونوں ان کے زانو پر سر رکھے کارٹون دیکھنے لگے تھے۔ کتّے بلّی کی عجیب ومضحکہ خیز حرکتوں پر وہ بھی بچوں کے ساتھ ہنستی اور کبھی مسکرانے لگتی۔ اے سی کی ٹھنڈک سکون بخش تھی۔ انھیں لگاتھاکہ آج وہ اپنے گھر میں اپنوں کے ساتھ ہیں۔
اچانک بچے سہم کر اٹھ بیٹھے،تب انھوں نے سرگھُماکر دیکھا تھا۔ غزالہ حسبِ عادت دروازے کا لاک بے آوازکھول کر دَبے پاؤں کمرے میں آئی تھی۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھے بچوں کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی اور تمثیل ہاتھوں میں تھیلے لئے نادم سا کھڑا تھا۔وہ فوراًاٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔
پھربچوں کے رونے اور ’’سوری ممّی۔ ‘‘کی صدا ئیںآنے لگی تھیں۔ تھوڑی دیر بعدتمثیل بیوی سے بولاتھا، ’’اب بس بھی کیجئے۔ غلطی ان کی نہیں۔‘‘
ان پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔وہ دوشی ٹھہرائی جاچکی تھی ۔
بچے جانتے تھے کہ پاپا یا دادی کی گوہار لگائی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس کی مداخلت سے معاملہ طول پکڑلیتا ۔ بے بسی نے اسے اجگر کی طرح جکڑ رکھا تھا۔لیکن طوطا ، ’’ببلو، نکّی۔۔۔ چُپ ،چُپ۔‘‘ کی صدائیں بلند کرنے لگا تھا۔
غزالہ نے جب چپّل، چادر اور تکیے کا غلاف کمرے سے باہر پھینکا ،تب وہ گھبراکر پردے کی اوٹ میں جاکھڑی ہوئی تھی۔تمثیل چپّل کو ان کے کمرے کی جانب ٹھوکرمار کے صفائی ابھیان میں بیوی کا ہاتھ بٹانے لگا تھا۔وہ باربارمعافی مانگ رہا تھا اور غزالہ نے چپّی سادھ رکھی تھی۔ اس کی چپّی زلزلہ کے بعد متوقع واپسی جھٹکے سا تا دیر دہشت میں رکھتی ہے۔
اس رات نکّی،ببلو بغیر کھائے سو گئے تھے اور وہ کانٹوں کی سیج پر کروٹیں بدل رہی تھی۔ وہ جانتی ہیں کہ غزالہ نے دانستہ بچوں کی خوب پٹائی کی تھی تاکہ وہ پھر کبھی اس کے کمرے کا رُخ نہ کریں۔قدموں کی آہٹ پاکر اس نے آنکھوں پر بازو رکھ لیا تھا ۔تمثیل کھانا رکھ کر الٹے پاؤں لوٹ گیا تھا۔اپنی اولاد کی بےرُخی اور روّیے پر ان کا دل بھر آیاتھا۔ پھر وہ سینے سے تکیہ لگائے تادیر روتی رہی تھی۔
اچانک اسے لگاکہ تمثیل کے ابّا سرہانے بیٹھے تسلّی دے رہے ہیں، ’’جمیلہ بیگم! تم بیٹا بہو کے گلے نہیں پڑی ہوبلکہ بیٹا نے لوک لاج میں تمھیں قیدی بنا رکھا ہے۔ یہ فلیٹ غزالہ کے نام ہے، تو کیا ہوا؟ یہ ہمارے پیسوں سے خریدا گیا تمھارے بیٹے کا گھر ہے۔ تم فریج، اے سی اور واشنگ مشین کا استعمال کرسکتی ہو۔ بیٹے کے بستر پر بیٹھ کے پوتا پوتی کو پہلو سے لگائے ٹی وی دیکھ سکتی ہو۔ کچن میں جاکر اپنے اور اپنوں کے لئے چائے ناشتہ بناسکتی ہو۔ ڈائننگ ٹیبل پر مل بیٹھ کر کھا پی سکتی اوربیٹے کے ساتھ بازار اور تقریبات میں جاسکتی ہو۔ یہ تمھارا گھر ہے ، جس میں بیٹا اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ یہ جیل ، پنجرااورشو کیس نہیں کہ وہ تمھیں قیدی یا شو پیس بناکر رکھے۔۔۔‘‘
اس نے قطع کلام کرتے ہوئے کہاتھا،’’ہاں! میں ایسا کر سکتی ہوں۔ لیکن کروں گی نہیں۔ ماں ہوں نہ۔دھرتی اور ماں سینے میں جوالا رکھ کر بھی شانت رہتی ہے۔‘‘
سر درد سے پھٹنے ، کنپٹّی کی نسیں پھڑپھڑانے اور دماغ ماؤف ہونے لگاتھا، تب اسے محسوس ہواتھاکہ وہ میرا سر دَبانے لگے ہیں۔ نہ جانے کس پہر ان کی آنکھ لگ گئی تھی۔ بے شک !اﷲ نے رات کو پردہ پوش اور نیندکو راحت بخش بنایا ہے۔
دوسرے دن تمثیل آفس سے لوٹتے وقت ایک مِنی کولر، ٹی وی اور اسٹینڈلیتا ہوا آیا تھا۔مِستری نے اسی وقت انھیں فٹ کر کے آن کر دیاتھا۔ وہ بستر پر خاموش بیٹھی بیٹے کی بے بسی اور اپنی ذلّت و رسوائی کاغم جھیل رہی تھی۔ وہ کمرے سے نکلتے ہوئے بولا تھاکہ ’’امّی ! اب آپ کو کسی کے کمرے میں جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘وہ لکشمن ریکھا کھینچ کر نکلاتھا۔
اس کی آنکھوں سے خون کی نہریں جاری ہوگئی تھیں۔ اسی وقت طوطا، ’’ببلو، نکّی۔‘‘ کی صدائیں بلند کرنے لگا ، جسے سن کے انھیں لگاتھا کہ وہ ساتھی قیدی کا درد محسوس کرکے ببلو اور نکّی کو پُکار کر کہہ رہا ہے، ’’دادی کے پاس جاؤنہ۔‘‘
مٹھو گردن گھُما گھُماکر سب کو دیکھتا اور باتوں کو سنتا رہتا۔ اس کا جب جی چاہتا، تب وہ ’’ ببلو، ببلو‘‘، ’’ نکّی، نکّی‘‘ کی صدا ئیں بلند کرنے لگتا۔ بچے اپنا نام سن کرمسرور ہوجاتے۔لیکن جب کبھی وہ ’’دادی، دادی‘‘ پُکارنے لگتا، تب غزالہ ’’چُپ‘‘ کہہ کے پنجرے کو نل کے نیچے رکھ کر ٹیپ کھول دیتی۔ پھر وہ تیز دھار کی مارسے بچنے کے لئے پھڑ پھڑاتا ہوا جائے پناہ ڈھونڈھنے لگتا، تب انھیں لگتا کہ مِٹھّو کے ساتھ وہ بھی سزا بھگت رہی ہیں۔
زمین اور آدمی حالات سے سمجھوتہ کر لیتا ہے۔لیکن ہوا اپنی مرضی سے رُخ اختیار کرتی ہے۔بیگم شرجیل احمد نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ پھر بھی بیوگی کی بے بسی انھیں سالتی اور شوہرکے ساتھ گزرے ایّام یاد آنے لگتے۔ان کا گُم صُم رہنا، خود کلامی کرنا ، کھڑکی سے لگ کر مہانگر کی بھاگتی دوڑتی زندگی کو دیکھنا،آنکھوں پر بازو رکھے خاموش پڑی رہنا اور نکّی، ببلو کو بیتے دنوں کے واقعات سناناغزالہ کو پھوٹی آنکھ نہیں بھاتا۔اس کی آنکھیں سی سی ٹی وی کیمرے سا بیگم شرجیل احمد کی حرکات و سکنات کو ریکارڈ کرتی رہتیں۔اس نے شوہر کوبتااور دِکھا کرقائل کردیا تھا کہ ان کی ماں ذہنی مریضہ ہیں ۔
اس شام میاں بیوی میں بہت دیر تک تکرار چلی تھی۔پھر تمثیل احمد ماں کو ایک پیکٹ پکڑاتے ہوئے بولا، ’’امّی! باس کی بیٹی کا برتھ ڈے ہے۔ انھوں نے آپ کو بھی ساتھ لانے کی تاکید کی ہے۔ جلدی سے تیار ہوجائیے۔ ‘‘
کمرے سے نکلتے وقت وہ بیوی سے ٹکراگیا تھا۔
بیگم شرجیل احمد گود میں پیکٹ رکھے بیٹھی رہیں۔ ماں کا کمرہ مسلسل کھُلا دیکھ کروہ پھر اندرگیا۔انھیں گُم صُم دیکھ کر وہ جھلّا کر بولا، ’’پلیز! تیار ہوجائیے نہ! ویسے بھی کافی دیر ہوچکی ہے۔ مجھے آپ کو ساتھ لے کر ہی جاناہے۔میں باس کو ناراض کرکے مصیبت مول نہیں لے سکتا۔ میری مجبوری سمجھئے! ‘‘پھر وہ پاؤں پٹکتا ہوا کمرے سے نکل گیا تھا۔
بیگم شرجیل احمد کے دل میںبیٹے کی پریشانی کا خدشہ پیدا ہوگیا، تب وہ فوراًاٹھ کر لباس تبدیل کرنے لگیں۔
وہ پہلی بار اس کار پر پوتا پوتی کے ساتھ بیٹھیں ، جس کی قسط ان کے پنشن سے ادا کی جا رہی ہے۔
پارٹی سے لوٹ کر بیگم شرجیل احمد بہت مسرور تھیں۔لیکن غزالہ کا چہرہ تمتما یاہواتھا۔ اس نے پہلی بار تذلیل کا کڑوا کسیلا ذائقہ چکھا تھا۔ مسٹر سندیپ ورما اور میڈم سَلوجا اسے بُری طرح نظر انداز کرکے بیگم شرجیل احمد سے تپاک سے ملی تھی۔ ورما جی کومَل کو بُلاکر بولے ، ’’بیٹی! ماتا جی کا چرن اسپرش کر آشیرواد لو۔ بزرگوں کا آشیرواد انمول ہوتاہے۔میں نے ماں کے آشیرواد سے ہی پد پرتِشٹھا، جن دھن بلکہ سب کچھ پراپت کیا ہے۔آج میرے پاس سب کچھ ہے ، ماں نہیں۔تم دادی کو مِس کرتی رہتی ہو، اسی لئے میں نے مسٹرتمثیل کو تاکید کی تھی کہ وہ ماتا جی کو ساتھ لائیے۔بیٹا! آج سے یہ تمھاری دادی اور ہم لوگوں کی ماتا شری ہیں۔‘‘
بیگم شرجیل احمدمان سمّان پاکر آبدیدہ ہوگئیں۔ جذبات سے مغلوب ورما جی اچانک جھکے اور ان کے قدموں کو اسپرش کرنے لگے۔ پھر ماںبیٹی نے ایک ساتھ چرن اسپرش کرکے ہاتھ ماتھے پر پھیر لیا۔انھوں نے دعائیں دیتے ہوئے بانھیں پھیلا دیں اور تینوں کو سینے سے لگا لیا ۔ تقریب میں شامل بیشتر لوگ موبائل سے بھی فوٹوکھینچنے اور ویڈیو بنانے لگے تھے۔
کومل نے کیک کاٹ کر خلافِ توقع پہلا ٹکڑا دادی کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ پھرہیپّی برتھ ڈے کا نغمہ پھوٹا،بیلون پھوڑے جانے لگے۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ اور مبارک بادی سے پورا ہال گونجنے لگا تھا۔ بیگم شرجیل احمد نے کیک کو ٹونگ کر فوراً اس کے ہونٹوں سے لگا دیا، تب کومَل نے کیک کا ایک ایک ٹکڑا ہاتھوں میں لے کر ایک ساتھ پاپا ممّی کے ہونٹوں سے سٹایا تھا ۔ پھر باضابطہ کیک کی تقسیم ہوئی۔کومل اپنے دوستوں کے ساتھ نکّی، ببلو کو بھی ساتھ لئے ادھر ادھر پھرنے لگی تھی۔ تھوڑی دیر بعد مہمان گپ شپ کرتے ہوئے کھانے پینے لگے تھے ۔
اپنے ساتھ کھانا کھلاکر سَلوجا، بیگم شرجیل احمدکو گھر دِکھانے لے گئی ۔ وہ اپنے کمرے میں ان سے دیر تک باتیں کرتی رہی۔ پھر انھیں قیمتی گرم شال کا تحفہ دیا۔
غزالہ نے گھوم ٹہل کے انھیں ہنستے بولتے ہوئے دیکھ سن لیا تھا۔
دوسرے ہی دن صبح تمثیل احمد ماں سے یہ کہہ کر نکلا کہ وہ ڈاکٹر اے کے وشواس کے یہاں نمبر لگانے جا رہا ہے۔
تمثیل احمدکار کھڑی کرکے سیدھے ماں کے کمرے میں گیا اور نرم لہجے میں بولا، ’’امّی! جلدی سے تیار ہو جائیے۔ بڑی مشکل سے چھٹّی لے کرنمبر لگا یا ہے۔‘‘
بیگم شرجیل احمدکو غزالہ کی چال سمجھتے دیر نہیں لگی۔پھر ان کے صبر وضبط کا باندھ ٹوٹ گیا۔وہ بولیں، ’’بیٹا! یہ کوئی بیماری نہیں۔ فقط گزرے ایّام کو پھر سے جینے کی تمنّا اور ان سے محظوظ ہونے کا ایک فطری عمل ہے۔اسے تم فراریت یاتلاشِ سکون بھی کہہ سکتے ہو۔ ماضی کو کریدنے کی یہ لت مجھے تمھارے والد کی موت کے بعد لگی ہے۔‘‘
پھر وہ قدرے توقف کے بعد بولیں،’’ اگر دُلہن یہ سمجھتی ہے کہ میں بچوں کے ذہن میں الّم غلّم بھر رہی ہوںاور اس کے گھرپریوار پر تسلط جمانا چاہتی ہوں یا پھر اپنے گھر جیسا مالکانہ حق کے ساتھ میں رہنا چاہتی ہوں، تو مجھے گاؤں پہنچا دو۔ آج بھی مہانگر سے گاؤںاچھا ہے، جہاں انس و محبت ، اخلاق و مروّت اور ایثار و اخلاص باقی ہے۔ممبئی کی مشینی زندگی مجھے راس نہیں آرہی ہے۔ جذبات سے عاری، عدیم الفرصت، بھاگتا ہوا انسان۔۔۔ ‘‘
تمثیل احمد قطع کلام کرتے ہوئے بولا،’’امّی ! آپ کی سوچ پر میں حیران ہوں۔ آپ نے خواہ مخواہ غزالہ کے خلاف دل میں بغض عناد پال رکھا ہے، جب کہ وہ آپ کی خاطر تواضع میں پیش پیش رہتی ہے۔وہ پہلے آپ کو کھِلاتی پِلاتی ہے۔ اسی نے مجھ سے آپ کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا عمدہ انتظام کروایا ہے۔ اسی کے دَباؤ میںواٹر پاٹ، کولر اور ٹی وی لایاہوں ۔ وہ آپ سے بات چیت نہیں کرتی لیکن وہی آپ کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھتی ہے۔ اگر وہ نہیں چاہے گی، تب آپ نکّی، ببلو کی صورت دیکھنے کے لئے بھی ترس جائیں گی۔آپ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے! اس نے روایتی بہو کی طرح آپ سے تو تو میں میں نہیں کیاہے اور نہ مجھے ہی آپ کے خلاف کبھی بھڑکایاہے۔پھر بھی آپ کو شکایت ہے؟ تو کھل کر کہئے نہ! ہم لوگ اس کا حل بھی نکال ہی لیں گے۔‘‘ اس کا چہرہ تمتمانے لگا ۔
بیگم شرجیل احمد ہکّا بکّا لختِ جگر کو دیکھنے لگیں، تب وہ نرم لہجے میں بولا،’’امّی! آپ جانتی ہیں، غزالہ صفائی پسند ہے اوراس کی سب سے بڑی کمزوری بچے ہیں۔ اسے فکر لگی رہتی ہے کہ کہیں ان کا ریجلٹ خراب نہ ہواور ذہن میں فالتو باتیں گھر نہ کر جائیں۔۔۔ اور یہ کیا کہہ دیا آپ نے؟ گاؤں پہنچا دوں؟ یعنی آپ یہ چاہتی ہیں کہ گاؤں والے اور رشتے دار آپ پر ترس کھائیں اور مجھ پر تھوکیں۔امّی! دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے! یہ سکھ سویدھا آپ کووہاں مل پائے گی؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں، نہیں ، ہرگز نہیں۔۔۔‘‘
ماں کے متغیّر ہوتے چہرے کو دیکھ کر تمثیل احمدیو ٹرن لیتا ہوا بولا، ’’امّی! ہم لوگ جانتے ہیںکہ آپ بالکل صحت مند ہیں۔اسی لئے فیزیشین کو دِکھانے نہیں لے جارہا ہوں۔ صرف ایک کھٹکا ہے ، جِسے وقت رہتے ہم لوگ دل سے نکالنا چاہتے ہیں کہ ابّا کی موت نے کہیں آپ کے ذہن پرمنفی اثر تو نہیں ڈالا؟‘‘
بیگم شرجیل احمد اٹھ کھڑی ہوئیں،تب اس نے انتہائی نرم لہجے میں کہا، ’’امّی! فریش ہوکر لباس تبدیل کر لیجئے۔‘‘
وہ بھڑک کربولیں، ’’میں کسی تقریب میں نہیں جارہی ہوں۔‘‘
پردے کی اوٹ میں کھڑی غزالہ کے لوٹتے قدموں پر نظر پڑتے بیگم شرجیل احمد احساسِ شکست خوردگی سے لہو لُہان ہوگئیں۔
ویزیٹرس روم میں بیگم شرجیل احمدکی آنکھیں گردش کرتے ہوئے روبروبیٹھی ایک دوشیزہ پر مرکوزہو گئیں، جس کا ایک ہاتھ پکڑے اس کی ماں بیٹھی تھی۔ وہ اٹھ کر اس کی ماں کے پہلو میں جا بیٹھیں، تب وہ لڑکی ایک نظر انھیں دیکھ کر ماں سے بولی،’’ماں! تم ادھر آجاؤ۔ میں بیچ میں بیٹھوں گی۔‘‘
ماں کسمساکر اٹھی۔وہ جگہ تبدیل کرکے پھر اس کا ہاتھ پکڑ کے بیٹھ گئی، تب وہ لڑکی دوسرا ہاتھ بیگم شرجیل احمدکے زانو پر رکھ کر بے تکلفی سے بولی، ’’اسے آپ پکڑ لو۔‘‘
بیگم شرجیل احمد پس و پیش میں پڑگئیں۔ان کا تجسس انھیں اٹھا لایا تھا۔ دراصل وہ یہ جاننا چاہتی تھیں کہ ایک تندرست لڑکی کو نفسیاتی معالج کے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟
انھیں گُم صُم دیکھ کروہ ان کے زانو کو تھپ تھپاکر ملتجی لہجے میں بولی، ’’پلیز! خوب کس کے پکڑئیے گا۔‘‘
پھروہ قہقہے لگاکر آنکھیں مٹکا تے ہوئے بولی،’’لیکن ا ب میں بھاگوں گی نہیں۔‘‘
وہ سب کی مرکزِ نگاہ بن گئی تھی۔ اس کی ویران آنکھوں میں بیگم شرجیل احمد کو بگولے اڑتے نظر آئے۔وہ اکتاکر ان کی ہتھیلی پر ہاتھ رکھ کر بولی، ’’اب پکڑ بھی لیجئے نہ۔‘‘
اس کی ماں نے فوراً التجا کی،’’بہن! اس کی بات مان لیجئے ورنہ یہ طوفان مچا دے گی۔خوداپنا چہرہ اور بالوں کو نوچنے لگے گی۔‘‘
گھبراکر انھوں نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا، تب وہ قہقہے لگاتے ہوئے ایک جھٹکے سے کلائیوں کو چھُڑاکر بولی،’’میں عورت ہوں۔ لیکن کمزور نہیں۔مجھ پر قابو پانا آسان نہیں۔میں شیرا والی ہوں۔ سَمرپن کو کمزوری مت سمجھنا۔۔۔ تم سب شریر کو قیدی بناسکتے ہو ، آتما کونہیں ۔آتما تو ایک پنچھی ہے، جو اڑجاتی ہے، پھُر۔۔۔ ‘‘ پھر وہ مسلسل قہقہے لگانے لگی ۔
اس کی ماں پھُس پھُساکربولی،’’بہن ! اس کی باتوں کا بُرا نہیں مانئے گا۔ یہ بہت نیک اور سیدھی سادی لڑکی تھی۔ اس کی سُندرتا نے ہی اسے برباد کر دیا۔پریم میں دھو کھے کھاکر یہ وِچھپت ہو گئی ہے۔۔۔ ‘‘
وہ قطع کلام کرتے ہوئے بولی،’’چُپ رہو!کچھ نہ کہو۔تم سب نے سازش رَچ کر اس کی ہتیّا کرا دی ہے۔اب مجھے پَرلوک جاکراس سے ملناہے۔بولو! کب تک روک پاؤگی مجھے؟ ‘‘
پھر وہ دیدے مٹکاتے ہوئے تحکمانہ لہجے میں بولی، ’’پکڑو میرا ہاتھ۔‘‘
اس کی ماں نے فوراً ہاتھ پکڑکر انھیں بھی ہاتھ پکڑ لینے کا اشارہ کیا۔لیکن وہ خاموش بیٹھی رہیں، تب وہ پھر زانوتھپ تھپاتے ہوئے بولی، ’’موسی! پکڑو نامیرا ہاتھ۔‘‘
انھوں نے بے دِلی سے اس کی کلائی پھر پکڑ لی۔
تھوڑی دیر بعد تمثیل احمد لپکتا ہواآیا اور بولا،’’امّی!جلدی سے چلئے۔ نمبر آگیا ہے۔ ‘‘
وہ فوراً اس کاہاتھ چھوڑکر اٹھ کھڑی ہوئیں، تب وہ لپک کر ان کا ہاتھ پکڑکے بولی،’’نہیں! مجھے چھوڑ کر مت جاؤ موسی!میں ایک عورت ہوں۔ اکیلی،بے سہارا۔کمزور، بہت کمزور ۔۔۔ مجھے سہارا چاہئے۔۔۔‘‘
بیگم شرجیل احمدایک جھٹکے سے ہاتھ چھُڑاکے آگے بڑھ گئیں۔ لیکن اس کی التجا، صدا ئے بازگشت کی طرح فضا میں گونجتی رہی۔
آگے آگے چلتے ہوئے بیٹے کودیکھ کر بیگم شرجیل احمد نے سوچاکہ وہ لڑکی سچ بول رہی ہے۔اکیلی، بے سہارا عورت کمزور ہوتی ہے ۔ عورت کو تاعمر مرد کا سہارا چاہئے۔ضعیف و ناتواںشوہربھی قوت کا منبع ہوتاہے اور تحفظ کااحساس دَلاتا ہے۔گھر سے باہر انگلی پکڑے ساتھ چلتا بچہ بھی مرد کا متبادل بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر اے کے وشواس ساحر صفت تھا۔امّی جان ! کہہ کر وہ بیگم شرجیل احمد سے سوال پوچھتا رہااور وہ سحر زدہ سی بولتی رہیں۔چند منٹوں میں ہی اس نے سینے سے دفینہ نکا ل لیا تھا۔
چیمبر میں لوٹنے سے قبل اس نے کہا، ’’امّی جان! آپ بالکل صحت مند ہیں۔ لیکن ذہنی تناؤ میں رہتی ہیں۔ دواوقت پر کھائیے گا ، اس سے آرام ملے گا اورگہری نیند بھی آئے گی۔‘‘
بیگم شرجیل احمد بولیں،’’بیٹا!تم نے امّی کہہ کر مجھے ماں بنا لیا ہے۔ اب تم پر ماں کی مدد کا فرض لازم ہو گیاہے۔ میں بڑی امید لے کر آئی ہوں۔ میری مدد کرو۔‘‘ ان کی نگاہیں ڈاکٹر پر مرکوز ہو گئیں۔
’’امّی جان! کیسی مدد چاہئے ؟ ‘‘اس کا لہجہ سنجیدہ تھا۔
بیگم شرجیل احمدبولیں،’’چیمبر میں بیٹھا میرا اکلوتا بیٹا، تمثیل احمدہے۔ میرے شوہر بہار سرکار میں افسر تھے۔وہ دل کے مریض تھے۔پچھلے سال ان کی موت ہو گئی۔میرا بیٹا نیک اور سیدھا ساداہے۔ لیکن بیوی کے چنگل میں بُری طرح پھنسا ہواہے۔ بیوی اس کی چاہت و ضرورت اورماںکو ساتھ رکھنا اس کی مجبوری ہے۔ میںباقی ماندہ زندگی گاؤں میں گزارناچاہتی ہوں تاکہ میرا بیٹا بھی بال بچوں کے ساتھ پُرسکون زندگی جی سکے۔ بیٹا! گاؤں میں میرا گھراور چاہنے والے لوگ ہیں۔ تمھاری مددسے گھر واپسی ہو سکتی ہے۔‘‘
’’امّی جان ! میں کوشش کرتا ہوں۔‘‘ اس کا لہجہ پُر عزم تھا۔
بیگم شرجیل احمدکوویزیٹرس روم میں بھیج کرڈاکٹر وشواس تمثیل احمد سے بولے، ’’ان کی ذہنی کیفیت ٹھیک نہیں ہے۔ان پر کبھی بھی پاگل پن کا دوڑہ پڑسکتاہے یا ذہنی تناؤ سے دماغ کی نس پھٹ سکتی ہے۔مِسٹر تمثیل! جتنی جلدی ہوسکے آپ انھیں کسی ہل اسٹیشن کی سیر کرا لائیے ۔میں اکیس دنوں کی دوا لکھ رہا ہوںاور بائیسویں دن کاکنفرم ڈیٹ دے رہا ہوں۔ ‘‘
گھر لوٹتے وقت تمثیل احمد ذہنی عذاب میں مبتلاتھا۔اسے بیوی پر غصّہ آرہاتھا کہ وہ مسئلہ پیدا کرتی ہے اور حل اسے نکالنا پڑتا ہے۔اس نے بار بار تلوار کی دھار پر اسے چلایا ہے۔ امّی کا وجود کتنا اہم ہے، وہ نہیں جانتی۔ پُر عیش زندگی ان ہی کاعطیہ ہے۔
اسے ایک ترکیب سوجھ گئی۔ وہ گھر پہنچ کربیوی سے بولا، ’’تمھارے سبب آج میں ایک بڑے خرچ میں پڑ گیاہوں۔ڈاکٹر نے امّی کے سامنے ہی انھیں فوراً سے پیشتر کسی ہل اسٹیشن لے جانے کی تاکید کی ہے۔اس مسئلے کا حل تمھیں ہی نکالنا ہے۔ میرا دماغ کام نہیں کر رہا ہے۔ اتنا بڑا خرچ برداشتکرنا میرے بس میں نہیں ہے۔‘‘
غزالہ خشک لہجے میں بولی،’’آپ کی ماںکا دَم گاؤں میں اٹکا ہوا ہے، گاؤں لے جائیے۔ لیکن ایک شرط ہے۔اگر وہ نہ آنا چاہیں تو گھسیٹ کرنہیں لانا ہے۔ ورنہ۔۔۔‘‘اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
تیر نشانے پر لگا ۔وہ فوراً ماں کے کمرے میں جاکر بولا، ’’امّی! ان دنوں اکثر ابّا مرحوم میرے خواب میں آرہے ہیں۔ کیوں نہ ہفتہ دس دنوں کے لئے ہم دونوں گاؤں چلیں۔ گھر کی صاف صفائی ہو جائے گی، آپ کا دل بہل جائے گا اور قرآن خوانی کے بعد فقیروں کوکھانا بھی کھِلا دیں گے۔ ‘‘
اندھا کیاچاہے ؟دو آنکھیں۔بیگم شرجیل نے حامی بھر دی۔
تمثیل احمدسفر کی تیاری میں لگ گیا۔نکّی، ببلو افسردہ، طوطا گُم صُم، بیگم شرجیل احمد پُر سکون اورغزالہ مسرور رہنے لگی۔
غزالہ کار نکال کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی رہی۔ بیگم شرجیل احمدنمازِ فجرپڑھنے لگیں۔تمثیل احمد سامان لئے بچوں کے ساتھ باہر نکلتا ہوا بولا، ’’امّی! جلدی کیجئے نہ۔ غزالہ کو تنہا بچوں کے ساتھ گھر لوٹنا ہے۔‘‘
بیگم شرجیل احمدنماز پڑھ کے اٹھیں اور پنجرے کا در کھول کر بولیں، ’’ساتھی قیدی ! تم بھی آزاد ہو جاؤ۔‘‘