ابابیل کی ہجرت
اماوس کی وہ رات امس بھری تھی۔ مچھّروں نے ناک میں دَم کررکھا تھا۔ بجلی کی آنکھ مچولی سے تشنہ لب انورٹر چند منٹوں میں ہی کراہنے لگتا۔اسی سبب فین اور ٹی وی کا کنکشن کاٹ کرہر جگہ سی ایف ایل بلب لگا دئیے گئے تھے۔
سات بجے سے گئی بجلی آٹھ بجے آئی تو ظفر ریڈیو بند کرکے میچ دیکھنے چھت سے نیچے اتر آیا۔ابّاہاتھ میں ریموٹ لئے الیکشن نیوز دیکھ رہے تھے۔وہ ٹھٹھک کر برآمدے میں کھڑا ہوگیا۔
ہند و پاک ٹی ٹونٹی میچ دلچسپ مرحلے میں تھا۔پھر بھی ظفر ابّا کو ڈسٹرب کرنا نہیں چاہ رہا تھا۔ اس نے طائرانہ نگاہ ڈالی۔ سبھی متحرّک و فعال تھے۔ سمینہ باجی چھوٹے چھوٹے برتنوں میں بھی نل سے پانی بھر رہی تھیں۔ اماں جلدی جلدی روٹیاں بنا رہی تھیں اور دادی کولر کی ہوا میںعافیت سے نماز پڑھ رہی تھیں۔ واپسی سے قبل اس نے سوچاکہ روٹی، کپڑا اور مکان کے بعد بجلی نے چوتھا مقام حاصل کرلیا ہے۔
قریب دس بجے پھر لوڈ شیڈنگ ہوئی، تب حسبِ معمول دادی کے علاوہ سب لوگ چھت پرجانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
چھت کو بیٹھنے لائق بنانے کی ذمّہ داری سمینہ کی ہے۔ دن بھر ظلم ڈھاتاسورج ، امس بھری رات کا عذاب دے چل دیتا، تب وہ ٹھنڈے فرش پر چٹائی بچھاکے اس پر پرانی توشک اور چادر بچھا دیتی۔ظفر ابّا اور اپنے لئے کُرسی لے کر جاتا۔ سمینہ اماں کے ساتھ فرش پر بیٹھتی تاکہ و ہ پڑوسیوں کی نظروں میں کم سے کم آئے۔
چھت پر بھی ہوا ساکت اور مچھّر منتظر تھے۔پورا محلہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اوپر آتے ہی اماں نے حسبِ معمول چاروں سمت کا جائزہ لیا۔ جگمگاتی نوآباد آئی اے ایس کالونی کو دیکھتے ہی وہ بھڑک کر بولیں،’’دیکھو تو! کیسا جگمگا رہا ہے۔دنیا سے انصاف اٹھ گیا ہے۔ ہم کلیجہ کاٹ کر بجلی کا بل چکاتے ہیں۔ پھر بھی نصیب میں سکھ نہیں ۔۔۔‘‘ ان کے لہجے میں حسد اور حسرت گھُلی ملی تھیں۔
غصّے میں وہ تیزہاتھوں سے پنکھا جھلنے لگیں۔ ظفرماں کے پہلو میںجابیٹھا، تب وہ اس کے منہ پر پنکھاجھلنے لگیں۔سمینہ نے فوراً احتجاج کیا، ’’اماں! مجھے بھی گرمی لگ رہی ہے۔‘‘
’’ پنکھا لے کر کیوں نہیں آئی؟‘‘پھر وہ اس کے منہ پر بھی پنکھا جھلنے لگیں۔
اچانک پورا شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔
’’دیکھو اماں! ہر جگہ بجلی چلی گئی۔۔۔ ‘‘ سمینہ چہک کر بولی۔
’’اچھا ہوا۔۔۔‘‘انھوں نے راحت کی سانس لی۔
’’اپارٹمنٹ تو پھرجگمگانے لگا اماں! ‘‘ظفر شرارت پر اتر آیا۔
’’بیٹا! اﷲ جِسے، جس حال میں رکھے ۔۔۔‘‘ ان کی سر د آہ میں بے بسی کا دھواں تھا۔
ظفر کوسنہرا موقع ہاتھ لگ گیا۔وہ قدرے بلند آواز میں بولا، ’’ابّا تیار ہو جائیں تو ہم لوگ بھی اپنے اپارٹمنٹ کے فلیٹ میں رہ سکتے ہیں، جہاں چوبیس گھنٹے بجلی پانی ملے گا ، چور اچکےکا خوف بھی نہیں رہے گا اور۔۔۔‘‘
انھوں نے قطع کلام کرتے ہوئے متجسُس لہجے میں پوچھا،’’بھلا وہ کیسے؟‘‘
’’بس! بلڈر سے معاملہ طے کرنا ہوگا۔ایک دو بلڈر تو مجھ سے پوچھ بھی چکے ہیں۔ ‘‘
اس کی نگاہیں ابّاکے چہرے پر مرکوز تھیں۔
’’ ہلدی لگے نہ پھٹکڑی، رنگ بھی چوکھا آئے ۔زمین مالک کو حصّے میں کئی فلیٹس مل جاتے ہیں۔ ایک میں رہو، باقی کرایہ پردے دو۔‘‘سمینہ بولی۔
’’ہماری حویلی تو سڑک کنارے ہے اوراس کا احاطہ بھی بڑاہے۔اس پر شاپنگ کمپلیکس کے ساتھ رہائشی فلیٹس زیادہ سود مند ہوں گے اورمستقل آمدنی کا ایک ذریعہ بھی نکل آئے گا۔‘‘ظفر اس طرح بولا کہ اس معاملے کو اسی وقت حتمی شکل دی جا رہی ہو۔
چہرے پرپھیلے تبّسم کو سمیٹتے ہوئے ابّا سنجیدہ لب و لہجے میں بولے، ’’بیٹا! دور کا ڈھول سُہانا ہوتا ہے۔اپارٹمنٹ کے فلیٹس بیا کے گھونسلے جیسے ہوتے ہیں۔ مکین اپنے آپ میں مگن رہتے ، مطلب سے مطلب رکھتے اور قیدیوں کی طرح نمبر سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی پوری توانائی اسٹیٹس مینٹین کرنے میں صرف ہوجاتی ہے۔ بات بات پر کہاسنی ، میٹنگ ، ضابطے اور فیصلے۔پارکنگ میں ہر وقت کی تکرار۔بچے کھیلنے کو ترسیں۔ کپڑے سکھانا مشکل۔ پردوں کا پارٹیشن۔ دال، سبزی میں پھورن پڑے تو سب چھینکیں۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھا مہمان، کانوں سے کچن کمرہ دیکھ لے۔ شرم و حیا طاق پر رکھ کرجینا پڑتاہے۔ بالکنی میں بیٹھو تو پڑوسی گمان کے گھوڑے دوڑانے لگیں۔ کچن گارڈن کے شوقین گملوں میں ادرک، لہسن اور مرچ اگاتے اور ڈرائنگ روم میں مصنوعی پھولوں کے گملے سجاتے ہیں۔ بیٹا! فلیٹ میں رہو گے تو قیدی پرندوںکی طرح سلاخوں سے دنیا دیکھو گے۔اپنے گھر میں رہ کر بھی ہوٹل جیسا احساس ہوگا۔ رکھ رکھاؤ کے نام پر ہر ماہ کرایہ دار کی طرح موٹی رقم دینی پڑے گی۔‘‘
پھرانھوں نے جگمگاتے اپارٹمنٹ کو دِکھاتے ہوئے کہا، ’’یہ دور سے جتنے اچھے لگتے ہیں ، اتنے ہوتے نہیں۔جس گھر میں آنگن اور چھت نہ ہو، کمرے سے آسمان نظر نہ آئے اور احاطے میں پیڑپودے نہ ہوں، وہ گھر نہیں۔۔۔‘‘
مچھّروںکی یلغار اور امس سے پریشان اماںاچانک ابل پڑیں۔ وہ قطع کلام کرتے ہوئے بولیں، ’’اسی سوچ کے سبب کھنڈر پشتینی مکان میں زندگی کاٹ رہے ہیں۔ یہ گھر نہیں، کیڑے، مکوڑوں،چوہوںاور نیولوں کا بسیرا ہے۔پورے گھر پر انھیں کی حکمرانی ہے۔اسٹور اور کچن میں ہر وقت تلچٹّے،چیونٹیاں اور چوہیا اپنے مُہم میں لگی رہتی ہیں۔سات بار مانجھو پھر بھی برتنوں سے تلچٹّے کی بو نہیں جاتی۔ کتنے جتن سے مہمانوں کا کپ، طشتری اور گلاس بچاکر میں رکھتی ہوں۔ اف! تھکی ماندی بستر پر جاؤ تو چھپکلی کی غلاظت پڑی ملے۔ سب سے بُرا حال تو برسات میں رہتا ہے۔ آنگن میںجونک، کیچوے رینگتے اور مینڈک کودتے پھرتے ہیں۔ دیوار و درپر بھی گھونگھا چِپکا سونڈ گھُماتا پھرتا ہے۔ چند منٹوں کی بارش میں گھنٹوں چھت ٹپکتی ، دیوار پسیجتا اور فرش تو مستقل نم رہتا ہے۔ حویلی میں ہریالی چھا ئی رہتی۔ مجھے تو بلّیوں میں دیمک کی سُرنگیں بھی نظر آئی ہیں۔ کسی دن چھت سینے پر آگرے گی۔۔۔‘‘
اماں کا دَم پھول گیا ۔وہ ہانپنے لگیں،تب سمینہ ہنس کے بولی، ’’ابّا نیچر فرینڈلی ہیں اماں! آج تک کسی موسم کی شکایت نہیں کی ہے۔‘‘
ابّا کو راہِ فرار مل گئی۔وہ فوراً بولے،’’بیٹا! موسم سے شکایت کیسی؟گرمی تربوز، خربوزہ، آم، لیچی لے کر آتی ہے۔ جاڑے میں لوگ دھوپ، آگ اور لحاف کا لطف لیتے ہیں اور برسات میں ہر طرف ہریالی چھا جاتی ہے۔‘‘
سمینہ نے سوچاکہ ابّا اکثراسی طرح اماںکے طعن و تشنیع کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ انھیں اچھے موڈ میں دیکھ کراس نے پوچھ لیا، ’’دالان سے ابابیل کے مہکتے گھونسلوں کوآپ کیوں نہیں ہٹانے دیتے؟‘‘
وہ بولے،’’بیٹا! ابابیل کوئیعام سا پرندہ نہیں۔یہ ہرجگہ گھونسلے نہیں لگاتی اور اچانک ہجرت بھی کر جاتی ہے ۔ جب ابرہہ لشکر لے کر خانہ کعبہ کو مسمار کرنے چڑھ آیا تھا، تب اﷲ کے حکم سے ابابیلوں نے ہی لشکر پرکنکری برسائی تھی ۔ ابرہہ مع لشکر مارا گیا تھا۔ بیٹا! یہ ابابیلیںکئی پشتوں سے ہمارے ساتھ رہ رہی ہیں۔ ان سے ہمارا جذباتی رشتہ ہے اور کسی کو بے گھر کرنا، اچھی بات بھی نہیں۔‘‘
غصّہ ضبط کئے اماں منہ پرپنکھا جھلتی رہیں ۔ظفرکوسمینہ باجی پر غصّہ آنے لگا کہ انھوں نے گفتگو کا موضوع ہی بدل دیاتھا۔ ابّاکی ذہن سازی کا یہ اچھا موقع تھا۔دراصل وہ انھیں کسی طرح رضامند کر لینا چاہتاتھا۔
قدرے توقف کے بعد ابّا فلسفیانہ لب و لہجے میںبولے، ’’تمھاری ماں کو کئی بار سمجھا چکا ہوں، دکھ اور سکھ محسوس کرنے سے ہوتا ہے۔ تدبیر سے تقدیر بدل جاتی ہے،یہ خیال شیطانی وسوسہ ہے۔اگر ایسا ہوتا تو یکساں تدبیر کا نتیجہ بھی یکساں ہوتا۔ دولت ، عورت اور اولاد اﷲ کے آزمائشی آلے ہیں۔ عقلمند آدمی دکھ میں صبر اور سکھ میں شکر سے کام لیتاہے۔ دنیا کا دکھ سکھ توعارضی ہے۔ ہمیں آخرت کی فکر کرنی چاہئے، جو نہیں کرتے۔بیٹا! کسی کومقدّر سے زیادہ اور وقت سے پہلے کچھ بھی نہیںملتا۔۔۔‘‘
بات بات پر نصیحت سنتی اماں پھر قطع کلام کرتے ہوئے تُرش لہجے میں بولیں، ’’عقلمند آدمی اپنا اچھا بُرا سوچتاہے۔ سر کے بوجھ کو بھی محسوس کرتا اوراس سے نجات پانے کی ترکیب ڈھونڈتا رہتاہے۔آپ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہتا ۔‘‘
سمینہ اٹھتے ہوئے بولی،’’میں چلی!۔۔۔دادی نیچے اکیلی ہیں۔‘‘
ابّا کا موڈ اچانک خراب ہو گیا۔انھوں نے کڑک کرپوچھا،’’تم کیا چاہتی ہو ؟ سمینہ کی پڑھائی بند کرادوں؟اسے کسی نامعقول کو سونپ دوں؟ ‘‘
جواب طلبی سے اماں سہم گئیں۔وہ نرم لہجے میں بولیں،’’ میں پڑھائی لکھائی کے خلاف نہیںہوں۔ بس یہی چاہتی ہوں کہ جیتے جی سمینہ اپنا گھر بسالے۔ اماں بھی یہی چاہتی ہیں۔آگے شوہر کی مرضی، وہ پڑھائی جاری رہنے دے یا نوکری کروائے۔۔۔ ‘‘
ابّا قطع کلام کرتے ہوئے بولے،’’لا تعلق سا دِکھائی دیتا باپ بے فکرا نہیں ہوتا۔ وہ بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے، سر کے بوجھ سے نجات پانا نہیں۔ ‘‘
بات بگڑتے دیکھ کر ظفر نے موضوع بدلنے کی کوشش کی، ’’اماں! ابھی تک چاند نہیں نکلا؟ ‘‘
’’ اماوس ہے۔‘‘ غصہّ ضبط کرتی ہوئی اماں نے مختصر سا جواب دیا۔
اچانک ماحول ناخوشگوارہو گیا۔غم و غصّہ پَر دار دیمک کی طرح فضا میں چھانے لگا، تب اماں پوری قوت سے پنکھا جھلنے لگیں اور ابّا سینے کا بٹن کھول کر ٹہلنے لگے۔
ظفر منقطع گفتگو کا سلسلہ جوڑنے کی غرض سے ابّا کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔جب وہ منڈیر پکڑ کے کھڑے ہوئے، تب اس نے پوچھا، ’’ابّا! اس بار سنٹر میں کس کی سرکار بنے گی؟‘‘
وہ خاموش رہے، تب ظفر کو لگا کہ اماں کی بے وقت کی راگنی سے ابّا سخت ناراض ہوگئے ہیں۔ اسے اماں پر بھی غصّہ آنے لگاکہ ان کے سبب اپارٹمنٹ کی بات ادھوری رہ گئی۔ اس نے چور نگاہوں سے ابّا کو دیکھا۔ وہ اذیّت کے گرداب میں پھنسے لگے۔پھر بھی اس نے بات آگے بڑھائی،’’اس بار ووٹر سبق سِکھانے کے موڈ میں نظر آرہے ہیں۔ ابّا! آپ کسی نتیجے پر پہنچے؟‘‘
ظفر ابّا کی خاموشی میں نقب لگا ہی رہا تھا کہ وہ اچانک سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے اندھیرے کمرے میں جاگھسے۔ ان کے پیچھے ظفراور اماں گرتے پڑتے اتریں۔ سمینہ جلدی سے چائنیز لیمپ اٹھاتی کمرے میں گئی ۔ دادی مچھّردانی میں الجھ کر گِر پڑیں۔ابّاتلملاکر گِرے اورفرش پر تڑپنے لگے۔ وہ کچھ بول نہیں پا رہے تھے ۔ ان کے منہ سے الفاظ کی جگہ ہوا نکل رہی تھی۔ بدحواسی میں کسی کو کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔ظفر ابّا !ابّا! پُکارتا ہوا انھیں فرش سے اٹھاکر بستر پر لیٹانے اورروتی سمینہ پانی پلانے کی کوشش کر رہی تھی۔بے بس اماں اور دادی چیختی ہوئی اﷲ سے فریاد کرنے لگیں۔
شور و غُل سن کر پاس پڑوس کے لوگ بھی دوڑ پڑے۔ پھرانھیں مقامی سنکٹ موچن نرسنگ ہوم میں داخل کرایا گیا۔انھیں دل کا پہلاشدید دورہ پڑا تھا۔اذانِ فجر کے فوراً بعد ابّا کی روح پرواز کر گئی۔
صف بندی کے وقت عباس چچا نے ظفر کو بُلاکر امام صاحبکے پیچھے کھڑا کیا تھا۔ جب انھوں نے نمازِجنازہ پڑھانے کی اجازت مانگی، تب وہ مخمصے میں پڑگیا۔ وہ سوچنے لگاکہ اب تک تو وہ ہر کام ماں،باپ کے حکم اوران کی اجازت سے کرتا آیاہے۔ باپ زندہ نہیں رہا ،لیکن اماں تو ہیں۔ ان سے پوچھے بغیر وہ اتنے اہم کام کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟
عباس چچا خاموش کھڑے ظفر کو ٹہوکے لگاکر بولے، ’’بیٹا! اجازت دے دوکہ اب تم ہی اپنے گھر کے ولی ہو۔‘‘
’’پڑھائیے۔‘‘اس کے منہ سے روبوٹک آواز نکلی ۔
بیشتر لوگ قبرستان سے ہی لوٹ گئے تھے۔ گھر تک آئے لوگوں میں بھی واپسی کی بے قراری تھی۔ دوتین گھروں سے بھیجی گئیں روٹی سبزی، پوری جلیبی، سنگھاڑہ لٹّی اور چاول، دال،سبزی پر مکھّیاںبھنبھنانے لگی تھیں۔ باپ کی مہمان نوازی کو ظفربرقرار رکھنا چاہتا تھا۔اسی سبب وہ فرداً فرداً شرکت کی التجا کر تا پھر رہا تھا۔ دسترخوان پر جا بیٹھے لوگ دستِ خود دہانِ خودپر عمل پیرا تھے۔ لوگوں کی عجلت پسندی ، حیلے حوالے اور رسم ادائیگی سے دل برداشتہ ظفر، جانے والوں کو فی الفور اجازت دینے لگا تھا۔ کھا پی کر بیٹھے چند لوگ خوش گپّیوںمیں مشغول ہوگئے۔
اچانک ظفر کو عباس چچا کی کہی بات یاد آگئی،تب وہ اماں ، دادی اورسمینہ باجی کی خبر گیری کے لئے گھر کے اندر چلا گیا۔
گھراب تک عورتوں اور بچوں سے بھرا تھا۔ ساتھ آئے بچے اکتانے لگے تھے۔ بار بارکے بُلاوے کو نظر انداز کرکے بیٹھی عورتیں نہ چاہتے ہوئے بھی الوداعی رسمی کلمات ادا کرنے لگی تھیں۔بیواؤںاور یتیموں کے چہرے پر ان کااپنا درد بھی سِمٹ آیاتھا۔
چہارم کے بعد پُرسہ دینے والوں کا سلسلہ منقطع ساہوگیا۔ کبھی کبھار کوئی موبائل فون پر موت کیسے ہوئی پوچھ کر خودکو شریکِ غم بتاتا اور کوئی موت و حیات کے فلسفے پر گفتگو کرنے لگتا۔ مخصوص رسمی کلمات اور ہدایت و نصیحت سے ظفراوبنے لگا تھا۔
ظفرکے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں تھا کہ ابّا کے مرتے خوشحال گھریلو زندگی خزاں رسیدہ ، گھر بے رونق اور حیثیت و ذمہ داری ازخودمنتقل ہوجائے گی۔وہ پلک جھپکتے بچے سے بڑاہو جائے گا۔
ظفر زندگی کو پٹری پر لانا چاہ رہا تھا، لیکن اسے کوئی ترکیب سوجھ نہیں رہی تھی۔وہ جب کبھی گھر کے اندر قدم رکھتا تو دیکھتا کہ اماں نو سزایافتہ قیدی کی طرح اداس و خاموش بیٹھی ہیں۔انھوں نے اعلانیہ خود کو شوہر کا قاتل تسلیم کرلیا تھا۔سمینہ باجی کی بولتی مسکراتی آنکھوں میں صحرائی ویرانی دکھائی دیتی۔ وہ بھی ابّا کی موت کا سبب خود کو ٹھہراچکی تھی۔نیز اس کے دل میں ’بیٹی‘ ہونے کا ملال اوربڑی ہوکر بھی کچھ نہ کرپا نے کی شدید کسک تھی۔ دو تین دنوں تک آنسو بہاکر دادی نے رونا بلبلانا چھوڑ دیا تھاکہ بیٹے کے غم کو بہو کی بیوگی اورپوتا پوتی کی یتیمی نے ڈھانپ لیا ۔ انھوں نے موت کی روداد سنانے کی ذمّہ داری لے رکھی تھی۔کم سخن دادی اب بولنے لگی تھیں۔ وہ اکثر سوچ سوچ کربیٹے اور اپنی ازدواجی زندگی کے واقعات پوتا پوتی کو سنانے لگتیں۔
سمینہ کاحُسن و شباب اکثر گیہوں کے پکے جھومتے خوشوں کی طرح جب سرسرانے اور بولنے لگتااور رات کے سنّاٹے میں اس کی چوڑیاں کھنکنے لگتیں،تب دادی اور اماں کی نیند اڑجاتی۔پھر شادی کی فکر دانت میں پھنسے ریشے کی طرح انھیں بے کل کر دیتی۔
کماؤ کنوارے بیٹے کی ماں،دادی کی توجّہ کا فوراً مرکز بن جاتی۔ وہ اپنی باتوں کاآغاز پوتے پر اچانک آپڑی گھریلو ذمہ داریوں سے کرتیں۔ پھر وہ بڑی صفائی سے سمینہ کی غیر معمولی صفات کا بکھان کرنے لگتیں۔ دادی کی خوشامدانہ گفتگو اوران کاطرزِ عمل سمینہ کو اچھا نہیں لگتا۔ وہ چائے ناشتہ لگا کر اپنے کمرے میں چلی جاتی ۔
ظفر کوکالج کے دوست بار بار بُلا رہے تھے۔ فائنل امتحان سرپر تھا۔ لیکن وہ گھر والوں کو بے یارومدگار چھوڑ کر دہلی نہیں جا رہا تھا۔
اس رات بھی امس بھری گرمی تھی۔ظفر حسبِ معمول دیر رات تک چھت پر کروٹیں بدل بدل کر سونے کی کوشش کرتا رہا۔ اس کا ذہن طرح طرح کے خیالات اور وسوسوں سے منتشر تھا۔ آخری پہراسے ایسی گہری نیند آئی کہ چہار جانب سے گونجتی فجر کی اذان بھی اسے بیدار نہیں کر سکی۔دھوپ شدّت اختیار کرنے لگی، تب اماں اسے دیکھنے چھت پرگئیں۔ بیٹے کو دھوپ میں بے سدھ پڑا دیکھ کر انھوں نے پاس پڑی چادرکو الگنی پر ڈال کر اس کے جسم پر سایہ کر دیا۔ پھر وہ چاروں سمت کا جائزہ لینے لگیں۔ انھیں صبح کامنظر حسبِ سابق لگا۔ دنیا اپنی رفتار سے چل رہی تھی۔لیکن فضا اداس لگی۔ انھیں لگاکہ دل کی اداسی نظروں میںاتر آئی ہے۔وہ سُست قدموں سے کمرے میں لوٹ آئیں۔
ایک رات اماں چھت پر تنہاں بیٹھی تھیں۔ اچانک ان کی نظر چاند سے دو چار ہوگئی۔ پھر ان کے ذہن میں پونم کی وہ رات مجسّم ہوگئی۔وہ پہلی بار اسے بہانے بناکر چھت پر لائے تھے۔ پھر چاندکو دِکھاکر انھوں نے پوچھا تھا، ’’ بتاؤ! وہ چاند خوبصورت ہے یا پہلو کا یہ چاند؟‘‘
بازوؤں کو پکڑ کے انھوں نے مسرور نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
اس نے بھی شوخ نگاہوں سے انھیں دیکھتے ہوئے کہا تھا،’’وہ۔ ‘‘
بے تاب ہوکروہ بولے تھے،’’نہیں! نہیں!۔۔۔پُر کشش چاند تو وہ ہے ، جِسے روح میں اتارا جاسکے، پہلو سے لگایا جا سکے ، جس کے ساتھ دکھ سکھ ساجھا کیاجا سکے ۔۔۔اور ۔۔۔اور جس کی سانسوں کی تپش سے وجود پگھلنے لگے، جو روح کو سکون اور جسم کو آسودگی بخشے۔ وہ خوبصورت چاند تم ہو۔ لو! میںابھی سے ہی تمھیں چاند کہہ کر پُکارتا ہوں ۔۔۔چاند! ‘‘
ان کی بے قراری میں محبت کی تڑپ و تپش تھی اور پُکار میں ریشمی دھاگے کی لچک اورمکھّن سی نرمی ۔وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے چاند کہہ کر ہی پُکاراکریںاور بات بات پر چاند کہیں ۔ صبح و شام کانوں میں رس گھلتا رہے۔ لیکن اس نے دل پر جبر کرکے کہا تھا، ’’نہیں! نہیں!۔۔۔ایسا غضب نہ کیجئے گا۔اماں سن لیں گی۔‘‘
ان کے اداس چہرے پر نظر پڑتے ہی اسے رحم آگیا تھا، تب وہ ان کی ناک پکڑکے بولی تھی،’’اداس کیوں ہو گئے؟ کبھی کبھار جی مچل جائے تو چپکے سے کان میں کہہ دیجئے گا۔‘‘
پھر وہ جلدی سے اچک اچک کر انعامی بوسے ثبت کرکے تیزی سے کمرے میں لوٹ آئی تھی۔ بستر پر اوندھے منہ لیٹی وہ سوچنے لگی تھی کہ شوہر محبتی ہو تو زندگی قوسِ قزح کی طرح خوش رنگ لگتی ہے۔پھر اسے لگا تھا کہ وہ محبت کے شیرے میں رس گلے کی طرح تیرنے لگی ہے۔ میٹھی یادیں سہیلیوں کی طرح تادیر گُدگُداتی اور چہل کرتی رہی تھیں۔
ایک صبح اچانک آ دھمکے معین چچا اور شرما جی کو دالان میں بٹھاکر سمینہ چھت پر گئی۔ظفر پسینے سے شرابوربے سدھ پڑا تھا۔وہ دوپٹّے سے ا س کی پیشانی خشک کرنے لگی، تب وہ گھبراکر اٹھ بیٹھا۔ سمینہ بستر سمیٹتے ہوئے بولی، ’’معین چچا اور شرما جی تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
ابّا کی موت کے دن سے ہی دوا کی دُکان بند پڑی تھی۔ معین چچا اور شرماجی ماہرِ فن سیلز مین تھے۔ اوپر کا کام دو یتیم نوجوان کرتے اور ابّاکے ذمّے کیش تھا۔
معین چچا بلا تمہید مشفقانہ لہجے میںبولے،’’بیٹا! یہ دُکان ہی توہم لوگوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ ہر کاروبار کے چند اصول اور شرائط ہوتی ہیں۔ چلتی دُکان بھی اگربہت دنوں تک بند رہے تو وہ بیٹھ جاتی ہے۔دواکی دُکان کا معاملہ زیادہ نازک ہے۔ ڈاکٹروں سے رابطہ بنائے رکھنا اور اکسپائر ہونے سے قبل دوائیں نکا لنی پڑتی ہے۔ وقت اور گاہک دونوں صبرا ور انتظار نہیں کرتے۔ہم چاہتے ہیںکہ اب آپ اپنے ابّا کی ذمّہ داریوں کو سنبھالیں۔ کاروبار کے داؤ پینچ بھی آپ جلدہی سیکھ جاؤگے۔۔۔ ‘‘
ظفر نے محسوس کیا کہ دادی اور اماںدروازے سے لگی باتیں سن رہی ہیں۔ وہ اچانک اٹھ کر اندرچلاگیا۔دادی اسے اپنے کمرے میں لے گئیں۔ اماں اور سمینہ بھی ساتھ ساتھ آئیں۔دادی سنجیدگی سے بولیں، ’’بیٹا! آج نہیں تو کل گھر پریوار کی ذمّہ داریاں تنہا تمھیں ہی سنبھالنی ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ آج سے ہی بسم اﷲ کرو۔ لوگوں کی ہمدردی پیٹ کی آگ ، تن کے تقاضوں اور سماجی ضروریات کو پورا نہیں کرتی۔آگے تمھاری مرضی۔۔۔‘‘
وہ خاموش ہو کر بہو کو دیکھنے لگیں، تب اماں بولیں،’’تمھاری دادی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم امتحان دے لو۔۔۔‘‘ ان کی جواب طلب نگاہیں بیٹے کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔
خاموش ظفر اٹھااور دُکان کی چابی لیتا ہوا باہر نکل گیا۔
معین چچا کو چابی سونپ کرظفربولا،’’چچا! ابّا کی جگہ اب آپ لوگ ہی ہمارے گارجین ٹھہرے۔ اماں کی خواہش ہے کہ میں اپنا امتحان دے لوں۔ آپ لوگ اتنی مہربانی کیجیے گا کہ ہر روز صبح چابی لے جایئے اورگھر خرچ کے ساتھ اسے رات میں لوٹا دیجئے گا۔ ان شا اﷲمیں امتحان دے کرآپ لوگوں کے مشورے پر عمل کروں گا۔ ‘‘
ظفر کا اضطراب ختم ہو گیا۔ پھر وہ امتحان دینے دہلی چلا گیا۔
معین چچا صبح چابی لے جاتے اور دُکان بند کرکے گھر خرچ کے روپئے کے ساتھ اسے سمینہ کو لوٹا دیتے۔ کالج جاتے وقت کبھی کبھارسمینہ راستہ بدل کر دور سے دُکان پر ایک نظر ڈال لیا کرتی۔ ابّا کی کُرسی پر معین چچا کو بیٹھا دیکھ کر اسے صدمہ پہنچتا۔
چند دنوں تک ہی معین چچا وعدہ وفاکرپائے۔ پھر ایک دن کبھی دو دن کے بعد صبح کے وقت آتے اور کچھ پیسے تھماکر چلے جاتے۔ سمینہ چاہتی تھی کہ وہ ظفر کو آگاہ کر دے ۔ لیکن اماں کا تاکیدی حکم تھا کہ اسے امتحان دے لینے دو۔
ایک دن صبح صبح معین چچا آئے اورسمینہ کو چابی دے کر بولے، ’’شرما جی نے کوئی اور دُکان پکڑ لیا ہے ۔دونوںلڑکے بھی نہیں آتے۔ میں تنہا دُکان نہیں چلا سکوں گا۔ ظفر آئے گا، تب مل بیٹھ کرآگے کی سوچیں گے۔‘‘
سمینہ چائے ناشتہ لے کر آئی تو دیکھا، معین چچا تیز قدموں سے سر جھکائے چلے جارہے ہیں۔اسے لگاکہ دال میں کچھ کالا ہے۔
سمینہ دن گنتی رہی۔ ظفر امتحان دے کر آیا تو اس نے رات میں ہی اسے تمام باتیں بتادیں۔
صبح ناشتے کے بعد اماں بولیں،’’بیٹا! میرا دل تو بیٹھا جارہا ہے۔ طرح طرح کے وسوسے ۔۔۔‘‘
دادی قطع کلام کرتے ہوئے بولیں،’’دنیا کا یہی چلن ہے ۔گھر میں آگ لگتی ہے تو اسباب لُٹتے بھی ہیں۔ ہوا کا رُخ اور انسان کا مزاج بدلتے دیر نہیں لگتی۔روح پرواز کرتے سرسے جوئیں بھی نکل بھاگتی ہیں۔‘‘
اماں، ظفر کا حوصلہ بڑھانے لگیں،’’ بیٹا! عزم و حوصلے سے کام لو۔چاہو توآج سے ہی ایک نئی زندگی کا آغاز کرو۔‘‘
دُکان کی چابی لے کر ظفرچلنے لگا، تب سمینہ دادی کے اشارے پراٹھ کھڑی ہوئی۔ ظفرخاموش رہا کہ اسے بھی بہن کی شراکت و معاونت درکار تھی۔
شٹر اٹھاتے ہی گرد و غبّار نے ان کااستقبال کیا۔بجلی کا کنکشن کٹا ہوا تھا۔ مکڑیوں نے فٹ پاتھی دُکانداروں کی طرح جگہ جگہ قبضہ جما رکھا تھا۔چہار سو دھول کی موٹی تہیں جمی تھیں۔کئی جگہوں پرجگر سوختہ کینڈل آنسوبہائے استادہ تھے۔سمینہ نے فرج کھول کر دیکھا۔ پانی کی دو بوتلیں پڑی تھیں۔ آئس بکس کا ڈھکّن غائب تھا۔وہ پاس پڑے جھاڑن اور جھاڑو کو اٹھاکر صفائی میں لگ گئی۔
ظفرنے کیش درازمیں جھولتی چابی کو گھُمایا۔دراز کھلا تھا، تب اس نے ا سے کھول کر دیکھا۔ چھِپکلی کے انڈوں کے شکستہ خول اور ایک کٹوری میں چند سکّے دھول سے اٹے پڑے تھے۔ اس کے ذہن میں ابّامجسّم ہو گئے۔ وہ ہر جمعرات کو خیرات بانٹتے تھے۔ اس نے اکڑے دراز کو زور لگاکربندکیا، تب متوحِش چھِپکلیاں کود کر تیزی سے ریک کے پیچھے جاچھُپیں۔ ظفر اسٹول پر چڑھ کے دواؤں کا جائزہ لینے لگا۔اچانک اس پرہیجانی کیفیت طاری ہو گئی۔وہ ریک پر سلیقے سے سجا کے رکھے گئے خالی ڈبّوں کو چیختے چلاتے ہوئے فرش پر گرانے اور بار بار یہی جملے دُہرا رنے لگا ،’’ اتنا بڑا فریب ؟! ایسی دغا؟۔۔۔‘‘
سمینہ کومعاملے کی تہہ تک پہنچتے دیر نہیں لگی ۔ وہ فوراً بھائی کا حوصلہ بڑھانے لگی، ’’دیکھو ظفر!چابی ہماری مٹھّی میں اوراﷲ ہمارے ساتھ ہے۔اگر معین چچا دُکان پر قبضہ جما لیتے، تب مشکل اور بڑھ جاتی ۔آزمائشی وقت میں صبر اور ہمّت سے کام لینا ہے۔اﷲ بڑا رحیم و کریم اور رزّاق ہے۔میں ہوں نہ تمھارے ساتھ۔امّی نے کہا ہے نہ کہ آج سے ہی ایک نئی زندگی کا آغاز کرو۔سمجھ لو کہ آغاز ہو چکا ۔‘‘
ظفر پُر سکون ہو گیا۔ دُکان کی صفائی کرکے دونوں گھر لوٹ آئے۔روداد سن کر اماں بولیں، ’’دیکھا اماں!میرا شُبہ صحیح نکلا نہ ؟‘‘
پوتا پوتی کو پہلو میں بِٹھاکر دادی بولیں،’’یہ واقعہ ایسا نہیں ،جو پہلی باراورصرف تمھارے ساتھ ہوا ہے۔یتیموں کے منہ کا نوالہ چھین کر کھانے والے ہر زمانے میں رہے ہیں۔اچھا ہی ہوا کہ پہلے قدم پر ٹھوکر لگ گئی۔ ٹھوکر کھایا انسان چوکنّا رہتاہے۔‘‘
ظفر اچانک اٹھا اور تیز قدموں سے باہر جانے لگا، تب سمینہ نے لپک کر اس کا ہاتھ پکڑلیا۔لیکن وہ ہاتھ جھٹکتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
ظفر خاموش اورسمینہ مضطرب رہنے لگی۔اماں اندیشوں کے گرداب میں ڈوبتی ابھرتیںاور دادی کو بار بار سجدہ سہو کرنا پڑتا۔ گھر اب جائے سکون و عافیت نہ رہا۔زیورات اور قدیم نمائشی چیزیں بکنے اوراماں پیسوں کو ہاتھ روک کر خرچ کرنے لگیں۔
ظفر زیادہ تر وقت باہر گزارنے لگا تھا۔اکثر وہ صبح کا نکلا رات میںگھرلوٹتا۔ ایک صبح وہ ناشتہ کرتے ہوئے بولا ،’’ دُکان ،کرائے پر دے دیا ہے۔ بوڑھی گائے کتنا دودھ دیتی؟۔۔۔ کولہو کا بیل چلتا دن بھر ہے، لیکن پہنچتا کہیں نہیں۔میںابّا کی طرح اپنی زندگی دوا دُکان میں نہیں کھپا سکتا۔ مجھے کچھ کرنا ہے۔ بڑا اور نیا ۔ نوشتہ تقدیر کو تدبیر اور عمل سے بدلا بھی جاسکتا ہے۔ میں اسے سچ کرکے دِکھاؤںگا۔۔۔‘‘
بیٹے کے افکار و گفتار پر اماں حیران رہ گئیں۔انھیں لگا کہ پوچھ پوچھ کر ہر کام کرنے والا ظفر اچانک بڑا اور خود مختار ہوگیا ۔دادی اس کی باتوں کو نظر انداز کر کے اسے پُچکارتے ہوئے بولیں،’’بیٹا! جوش اور عزم تمھارے پاس ہے، لیکن تجربہ نہیں۔مشورے سے کام کروگے تو پشیمانی نہیں ہوگی۔دلدل میں پھنسا آدمی قوت سے نہیں، حکمت سے نکلتا ہے۔۔۔ ‘‘
ظفراچانک ناشتہ چھوڑ کراٹھا اور تیز قدموں سے باہر نکل گیا۔
’’دیکھا اماں! ۔۔۔‘‘انھوں نے فریادی لہجے میں کہا۔
’’دُلہن!ابھی وہ بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ خدا خیر کرے ۔تم صبر کرو۔‘‘
ظفر فوراً سے پیشتربے رنگ زندگی میں قوسِ قزح کے تمام رنگوں کو بھردینا چاہتا تھا۔ سمینہ اس کی ہمدم و معاون بن گئی تھی۔دونوں مل جل کر منصوبے بناتے۔
ایک صبح حویلی کے سامنے ایک کار آکر لگی۔ آہٹ پاکر دادی اور اماں پردے کی اوٹ سے دیکھنے لگیں۔ظفر کے ساتھ چند افراداترے اور دندناتے ہوئے احاطے میں پھیل گئے۔ زمین کی پیمائش تادیر ہوتی رہی۔ پھر سبھی لوٹ گئے۔
ظفردیر رات گھرلوٹا۔ مضطرب دادی نے نرم لہجے میں پوچھا، ’’بیٹا! یہ کون لوگ تھے؟‘‘
ظفر خاموشی سے جوتے کے تسمے کھولتا رہا،تب انھوںنے دوسرا سوال داغا، ’’زمین کی پیمائش کیوں کر رہے تھے؟‘‘
دادی کی پشت پر کھڑی اماں بھی جب اسے جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگیں، تب وہ ماں کے بازوؤں کو پکڑکے اپنائیت سے بولا،’’ اماں! آپ کے ہی خوابوں کو حقیقت کا روپ دے رہا ہوں۔اس غلیظ و مخدوش حویلی سے سب کو جلد ہی نجات مل جائے گی۔ ‘‘
دادی معاملے کی تہہ تک پہنچ کر بھی تصدیق و تسلّی کرلینا چاہتی تھیں۔ انھوں نے سمینہ سے پوچھا،’’بیٹی! تم مجھے سمجھاؤ کہ ظفر کیا کہہ رہا ہے؟‘‘
’’ دادی! ظفر نے ابّا کے نام پر ایک جوائنٹ کنسٹرکشن کمپنی قائم کیا ہے یعنی ساجھے میںبلڈر کا کام شروع کیا ہے۔پہلا تعمیراتی کام اسی حویلی سے شروع ہوگا۔ اکیس تاریخ تک ہم لوگ کرائے کے مکان میں شفٹ کر جائیں گے۔پھر ایک تاریخ سے یہاں کام شروع ہوجائے گا۔‘‘
وہ مسکراتے ہوئے بولی،’’ ابّا کبھی کبھی چپکے سے اماں کو’ چاند‘ کہہ کر پُکارا کرتے تھے، اسی لئے ہم نے کمرشیل کمپلیکس کا نام ’مون پیلیس ‘ رکھا ہے۔‘‘
پھروہ چہک کر بولی،’’دادی! ہمارے حصّے میں پانچ فلیٹس اورسات دُکانیں آئیں گی۔۔۔ ‘‘
اچانک اماں چیخ پڑیں، ’’نہیں چاہئے مجھے فلیٹس اور دُکانیں۔یہ حویلی ہی میرے لئے جنّت نظیر ہے۔ یہاں تمھارے باپ کی یادیں اور ان کی چہیتی ابابیلیں ہیں۔ مجھ سے جینے کا سہارا مت چھینوتم لوگ۔۔۔‘‘
وہ دَھم سے چوکی پر بیٹھ گئیں۔پھران کی آنکھوں سے درد و بے بسی کی نہریں رواں ہو گئیں۔
ظفرکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دادی بولیں،’’بیٹا! اس حویلی کے چپے چپے میں اجداد کی یادیں پیوست ہیں،اس کے انہدام سے ان کی روح تڑپ اٹھے گی،پھل دار درخت کٹ جائیں گے، ابابیلیں بے گھر ہوجائیں گی،یہ حویلی محلے کی پہچان۔۔۔‘‘
ظفرابل پڑا۔وہ قطع کلام کرتے ہوئے پُر آواز ہاتھ جوڑ کربولا،’’دادی! پلیز! آپ لوگ جذباتی بلیک میل نہ کیجئے۔تیر کمان سے نکل چکا ہے۔۔۔‘‘
پھروہ ماں کے کندھوں کو پکڑکے بولا،’’ایک بات کہوں اماں! میں نے اپنے باپ سے کوئی سوال نہیں کیا ہے۔لیکن میرے بچے مجھ سے جواب طلب کریں گے کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا؟ اورمیں شرمسار ہونا نہیں چاہتا۔ میں وراثت میں خرد بدر نہیں کررہا ہوں بلکہ ایک مخدوش کھنڈر کو عالی شان کمرشیل کمپلیکس میں تبدیل کر رہا ہوں،جہاںمفلسی، محتاجی، ناامیدی اور خدشات کا داخلہ ممنوع ہوگا ۔‘‘
پھر وہ قدرے توقف کے بعد بولا،’’ ایک بات اور۔۔۔ اب آپ لوگوں کو سمینہ باجی کی شادی کی فکر نہیں کرنی ہے ۔ حالات بدلتے ہی لڑکے والوں کے آفرس کی جھڑی لگ جائے گی اور ردّ و قبول کا حق و اختیار ہمیں حاصل ہوگا۔ ڈرائنگ ہال میں ابّا کا قدآدم اور حویلی کی بڑی سی تصویر آویزاں ہوگی۔ اب میں مصوّر کو تصویر میں حویلی کے اوپر ابابیلوں کو بھی اڑتے ہوئے دِکھانے کے لئے کہہ دوں گا، لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے، جب ہم منصوبے میں کامیاب ہوں گے۔ ‘‘
پھر وہ دادی کا ہاتھ پکڑکے بولا، ’’دادی!پرندوں کے لئے یہ دنیا وسیع تر ہے۔ ابابیلیں کہیں اورٹھکانہ تلاش کر لیں گی۔میں اجداد کی یادوں اورپرندوں کے لئے اپنا فیصلہ بدل نہیں سکتا۔‘‘
قدرے توقف کے بعد وہ بولا، ’’میرے منصوبے میں وہ تمام جدید سہولیات مہیّا کرانا ہے، جن کا تصوّربھی آپ لوگ نہیں کر سکتیں۔‘‘
ظفر کے عزم و ارادے کو دیکھ کر دادی کی بے بس نگاہیں اماں پر مرکوز ہوگئیں۔
فضا بوجھل و سوگوار ہو گئی۔اماںکو لگا کہ ان کی قوتِ گویائی سلب ہوگئی ہے، تب وہ مُہاجر کی طرح نظریں دوڑانے لگیں۔ انھیں لگا کہ صدمے سے دو چار دادی کی جھرّیاں اچانک نمایاں ہوگئیں ، در و دیوار خاموش تماشائی، ابابیلیں دَم بخود، درخت کے پتّے کانپنے لگے ہیں اور بھائی کے شانے سے لگ کر کھڑی سمینہ بھی صفِ حریف میں ہے۔
اسی عالمِ سکوت میں دادی نے اچانک اعلان کردیا،’’تم بھی سن لو ظفر! میری ڈولی اسی حویلی میں اتری تھی، یہیں سے میرا جنازہ نکلے لگا، تب ہی۔۔۔‘‘
پھر وہ تیزقدموں سے اپنے کمرے میں گئیں اور اندر سے دروازہ بند کرلیا۔
’’ٹھیک ہے، جمی رہئے ۔جیتے جی سینے سے چمٹائے رکھئے کھنڈر حویلی کو ۔۔۔میں ہی گھر چھوڑ دیتا ہوں۔سمینہ باجی ! اماں اور دادی کا خیال رکھئے گا۔ اﷲحافظ ۔۔۔‘‘
پُر طیش ظفر دروازے کو لات مارتا ہوااماں کے کمرے سے نکل گیا۔
ابّا کی موت کے بعدایک بار پھر حویلی میں ماتمی سنّاٹا چھاگیا۔
اماں اورسمینہ کی تمام تر کوششیں رائیگاں گئیں۔دادی نے دروازہ نہیں کھولا۔ دیر رات تک ظفر گھر نہیں لوٹا، تب اماں کی تشویش سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
تیسرے پہر کے مہیب سنّاٹے میں اچانک دروازے کے کراہنے کی آواز ابھری، تب اماںاور سمینہ کی نگاہیں وا ہوتے دروازے پر مرکوز ہوگئیں۔
چند گھنٹوں میں ہی دادی کا رنگ روپ بدل چکا تھا۔کمر، کمان سی ہوگئی تھی۔ انھوں نے دروازے کا پلہ پکڑکے مخدوش لہجے میں پوچھا،’’دُلہن! ظفر آیا؟‘‘
ان کی بھرّائی آواز میں اعلانِ شکست بھی تھا۔
اماں جواب دیتیں،اس سے قبل قہقہے لگاتا ہوا ظفرکمرے سے نکلا اور دادی کو آغوش میں لے کر بولا، ’’دادی! مجھے تو اسی لمحے کا انتظار تھا۔۔۔ میں جانتا تھا کہ آپ کی محبت گھٹنے ٹیک دے گی۔۔۔‘‘
ظفرکی شاطرانہ چال پراماں حیران رہ گئیں اور سمینہ چہرے پر پھیلتی مسکان کو روک نہیں پائی۔
ظفر کے سینے سے لگی دادی نے آنکھیں موند رکھی تھی۔انھیں لگاکہ ابابیلیں ہجرت کے لئے پَرتول رہی ہیں۔