گرچہ ایسا سدا نہیں ہوتا

گرچہ ایسا سدا نہیں ہوتا
ہاں کبھی کچھ پتہ نہیں ہوتا


لوگ ملنے کو مل ہی جاتے ہیں
ان سے پر سامنا نہیں ہوتا


رسم دنیا نبھا رہے ہیں ہم
خود سے ہی رابطہ نہیں ہوتا


بن پئے بھی کئی بہکتے ہیں
ہم کو پی کر نشہ نہیں ہوتا


ان کو بت ہی سمجھ کے پوجا تھا
پوجنے سے خدا نہیں ہوتا


کہنے سننے سے کیا نہیں ہوتا
آدمی یوں برا نہیں ہوتا


یہ گھڑی اب کہ آن پہنچی ہے
دل میں وہ ولولہ نہیں ہوتا


بے غرض کون ہے یہاں زاہدؔ
مل کے بھی فائدہ نہیں ہوتا