غم بھلانے کا ہمیں کوئی بہانا تو ملے
غم بھلانے کا ہمیں کوئی بہانا تو ملے
شب فرقت کا ہر اک لمحہ سہانا تو ملے
مندر و مسجد و معبد ہو کہ مے خانہ ہو
سر جھکانے کے لئے کوئی ٹھکانہ تو ملے
بزم خاموش کی آہٹ ہو کہ پت جھڑ کا سکوں
عیش و غم ہم کو یہاں شانہ بہ شانہ تو ملے
یہ تسلی سہی یاد آئی تو وہ بھی آئے
میرے احساس غم دل کا نشانا تو ملے
صرف تقدیر میں ہو صحرا نوردی جس کی
مجھ سا دنیا میں کوئی ایسا دیوانہ تو ملے
اپنے اشکوں پہ اٹھا لے کوئی عشرت کا بوجھ
وقت کی راہ میں اب ایسا زمانہ تو ملے
مشق یاران ستم صحن گلستاں میں ہے
صبح دم جشن بہاراں کا فسانہ تو ملے
شامیانہ ہو ستاروں کا مرے آنگن میں
میری قسمت میں شفقؔ ایسا گھرانا تو ملے