فسوں زدہ ہیں ہوائیں منظر تمام مسحور چپ پڑے ہیں
فسوں زدہ ہیں ہوائیں منظر تمام مسحور چپ پڑے ہیں
سیاہ نیرنگ نیم شب کا ستارے جھک جھک کے دیکھتے ہیں
سحر کی لو میں جلا رہی ہے صبا کنول رنگ و بو میں تر ہیں
درخت سارے سجائے موتی کی تھالیاں صف بہ صف کھڑے ہیں
ہزار راتیں گزر گئیں اک ہمارے ہی غم کی شب نہ گزری
اجالے خائف سیہ کدے سے بدل کے رستہ نکل رہے ہیں
دھڑکتے دل جیسی ساعتوں والے روز و شب اب کہاں سے لائیں
گرے ہوئے خشک موسموں میں نہ جانے کب کے وہ کھو چکے ہیں
اس ایک ہی زندگی میں کتنے جنم لئے بار بار ہم نے
اور اب یہ روز جان دے دے کے کیوں جیے بیٹھے سوچتے ہیں
حقیقتیں یوں نہیں بدلتیں بخوبی معلوم ہے ہمیں بھی
فرار ہونے کو خود سے کچھ خواب زار پھر بھی بنا لیے ہیں
خود اپنی خواہش پہ جان دینے کا نام رکھا ہے عشق و الفت
ہوا ہوس میں یہ خود فریبی کے جال کیا دل نشیں بنے ہیں