نئی عورت کا ترانہ

ہاں دروازے پر چڑھی کنڈی اتار لی گئی ہے
مگر دروازوں کو کھولنے کے لئے
خود ہی چل کر جانا ہوگا
آنکھوں کی پٹی کھول دئے جانے پر بھی
بینائی کو نگاہ کی عادت دھیرے دھیرے ہی پڑتی ہے
ہونٹوں پر لگی مہریں ہٹ جانے پر بھی
بولنے کے لئے زبان کو الفاظ کی مشق کرانی ہوتی ہے
آزاد تو دماغ کو ہونا ہے
صرف جسم کی آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی
سر کی چادر سے اپنی برہنگی اپنے ہاتھوں ڈھکنی ہوگی
سر پر تاج ہے اور پیروں میں بیڑیاں
کیا عجیب نہیں لگتا
زنا سے لے کر آدھی گواہی تک
بے شک یہ چارج شیٹ بہت لمبی ہے
لیکن مجھے اس کے بارے میں سوچنے کی
نہ فرصت ہے نہ ضرورت
ویسے بھی یہ چارج شیٹ میری عدم موجودگی میں تیار کی گئی تھی
دشنام ملے یا انعام مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
مجھے تو اپنے آزاد ہاتھوں سے اپنے پیروں کی بیڑیاں ہٹا کر
اس ملگجے اندھیرے کو اپنی پلکوں سے بٹور کر
کنارے لگانا ہے
دروازے تک جانا ہے
کہ ان بند پٹوں سے باہر ایک کھلی فضا
میرا انتظار کر رہی ہے
جہاں میں کم از کم آزادی سے سانس تو لے سکوں گی
ہاں میں شہر میں داخل ہونے والی پہلی عورت ہوں
کہیں بھی پہنچنے کے لئے اٹھایا ہوا
پہلا قدم