فسادیوں کا مذہب

ہر چند کہ راحیل اور شمون کو ہندومذہب سے کچھ لینا دینا نہ تھا مگر اپنی بیوی کے اصرار پراسے شہر کی مشہور ’رام لیلا‘ دکھلانے نکلا تھا۔زیادہ ٹھنڈ کے باعث طے شدہ صراحت کے مطابق انھیں زیادہ رات ہونے سے قبل گھر واپس لوٹ جانا تھا۔ تمام دوپہر ان دونوں نے مارکیٹِنگ اور گھوم ٹہل کر گزارا۔ جب سورج غروب ہونے کو آیا تو وہ لوگ سیدھے رام لیلا میدان پہنچ گئے۔ سردیوں کی دوپہر کی نرم اور سنہری دھوپ جتنی دلکش اور فرحت بخش ہوتی ہے، اس کی لمبی راتیں اور ہڈیوں تک سراعت کرجانے والی سرد ہوائیں اتنی ہی تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ لاتعداد برقی قمقموں اور بڑے بڑے ہیلوجن لائٹ سے خارج ہونے والی ہدت اور انسانی ہجوم کے باوجود کھلے آسمان کی سرد ہواؤں کا اثر ہر کس و ناکس کے چہروں سے صاف عیاں تھا۔ ایسی خوبصورت اور جاذب نظر سجاوٹ اور انسانی چہل پہل کے باوجود نہ جانے کیوں شمون کا دل وہاں نہیں لگ رہا تھا۔ وہ یہاں سے نکل کر جلداز جلد اپنے گھر پہنچ جانا چاہتا تھاجبکہ راحیل کا دل گھر جانے کو ایکدم نہیں چاہ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر اور رک کر سیتا سویمبر کا منظر دیکھنے کی خواہاں تھی مگر شمون کے باربار اصرار کے سبب اس نے اس مقام پر زیادہ دیر تک رکنے کا ارادہ ترک کر دیا اور شوہر کے ساتھ گھر واپسی کے لیے کار میں آبیٹھی۔
افواہ اور فرقہ وارانہ فساد کے لیے یہ شہر پورے ملک میں بدنام تھا۔ سنتے تو یہاں تک ہیں کہ ایک مرتبہ دو عدد دَبنگ قسم کے سانڈوں کے پوری شدت اور جوش کے ساتھ لڑجانے کے سبب دست بھگدڑ مچ گئی ۔ بے تہاشہ بھاگنے والوں میں بیشتر ایسے تھے جو اس بھگدڑ کی حقیقت سے قطعی نابلدتھے اور ایک دوسرے کی تقلید میں جدھر سینگ سمائی، بھاگے جا رہے تھے۔ اس بھگدڑ سے دور اپنے مُحلّوں میں پہنچنے کے بعد کچھ لوگوں نے ایسے زوردار اور پر اثر انداز میں بھگدڑ کا بیان ’’اس ایریا میں شاید دَنگا ہو گیا ہے‘‘ کیا تو کچھ آگے بڑھ کر اس افواہ سے جب ’شاید‘ لفظ از خود خارج ہو گیا تو اس افواہ نے عوام کے درمیان یقین کی صورت اختیار لی اور ہمیشہ کے مانند ’ہر ہر مہادیو اور نعرۂ تکبیر....اﷲُ اکبر‘ جیسے متبرک الفاظ ایک بار پھر انسانی زندگی کے درپے نظر آنے لگے تھے ۔
مذہب کے اعتبار سے راہیل اور شمون یہودی تھے۔ انھیں شہر میں ہر چھٹے چھماہے ہونے والے فرقہ وارانہ فساد سے کچھ لینا دینا نہ تھا۔ نیک اور ہمدرد انسان کی مانند انسانی زندگیوں کے تلف ہونے پر انھیں افسوس ہوتا۔چونکہ فساد گزیدہ افراد سے انھیں حددرجہ ہمدری تھی اس لیے اپنی مالی حیثیت کے مطابق وہ ان لوگوں کی مدد دل کھول کر کرتا تھا۔ وہ پھول، تتلیاں،جگنو اور آبشار دیکھ کر خوش ہوتا ۔انسانیت پر ہو رہے ظلم دیکھ کر اس کی آنکھیں بھرآتی تھیں،اس لیے کہ اس کے خون کا رنگ کا لال تھا۔
ابھی انھوں نے نصف راستہ بھی طے نہیں کیا تھا کہ شہر کے اتّری حصے سے عجیب قسم کا شور بلند ہوا۔ شمون نے اپنی توجہ جب اس شور کی طرف مبذول کی تو اسے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ شہر میں دنگا بھڑک اٹھا ہے، جبکہ شہر میں کہیں کسی قسم کا ٹنشن بھی نہیں تھا۔
’پتہ نہیں کیا ہو گیاہے آج کل کے انسانوں کو؟ کہنے کو ہمارے ملک نے اب اتنی ترقی کر لی ہے کہ جلد ہی ہملوگ چاندستاروں کی سیر کریں گے اور ہمارے ذہنی معیار ابھی فرقہ وارانہ فساد کی سطح سے اوپر بھی اٹھ سکے ہیں۔ہر فرقے کے لوگوں میں بس اپنے خدا کو اونچا اور دوسرے فرقے کے خداؤں کو نیچا دیکھانے کی ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے۔‘یہی سب بڑبڑاتا ہوے اس نے گاڑی شہر سے باہری راستے سے نکال کر اپنے گھر کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو راحیل نے اسے ایسا کرنے منع کرتے ہوے کہا۔
’’ان خطرناک حالات میں ہم لوگوں کو جلد از جلد گھر پہنچنے کی فکر کرنی چاہیے۔ شہر سے باہر کا راستہ تو کافی لمبا ہے۔راہ میں کسی سون سان یا سنّاٹے علاقے میں پھنس گئے تو مصیبت ہو جاے گی۔ ان دنگائیوں کا کیا بھروسہ۔ اکثر ان کے قتل و غارت کا اصل مقصد لوٹ پاٹ ہی ہوتا ہے اور ظاہر ہے ، چونکہ ہم لوگ کار میں سوار ہیں اس لیے۔۔۔!‘‘
’’میرا دل تو نہیں چاہتا کہ میں ایسے حالات میں بیچ شہر والے راستے سے گھر جاؤں مگر تمھارا یہ کہنا بھی درست معلوم ہوتا ہے اکثر فسادیوں کا اصل مقصد لوٹ پاٹ ہی ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے، میں شہر کی طرف سے ہی چلتا ہوں۔ ابھی چونکہ فساد کی شروعات ہے اس لیے عوام میں زیادہ تر لوگ اپنے گھروں کی طرف ہی بھاگ رہے ہوں گے، اس لیے ہم لوگوں کو بھی انھیں کی بھیڑ میں شامل ہو کر نکل جانا چاہیے۔‘‘ اور اس نے اپنی کار بیچ شہر والی شاہ راہ کی طرف موڑ دی۔ ابھی وہ تھوڑی مسافت طے کر کے ایک گھنی آبادی والے محلے کی طرف مُڑا ہی تھا کہ ایک بڑے مجمعے کواپنی طرف آتا دیکھ کر اس نے کار دوسری جانب موڑ دی مگر ادھر سے بھی ایک بھیڑ دیوانہ وار شور مچاہی ہوئی اسی کی طرف آتی ہوئی دکھائی دی تو اس نے گاڑی کی رفتار بڑھانے کے بجاے کم کر دی۔ آن کی آن میں سیکڑوں فسادیوں نے اس کی کار کو گھیر لیا۔ موت کو اتنے قریب دیکھ کر ان دونوں کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے مگر اس نے اپنے چہرے سے ایسا کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا۔فسادیوں میں سے ایک شخص نے اس کے قریب آکر بھاری آواز میں سوال کیا۔
’’تمھارا تعلق کس مذہب سے ہے؟‘‘ان کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو رہی تھیں۔
’’میں۔۔۔میں۔۔۔مم۔۔۔‘‘
’’مُسلمان ہو؟‘‘فسادی نے خود ہی کہا۔
’’جی ہاں جناب۔۔۔ہم لوگ مُسلمان ہیں اور۔۔۔!‘‘
’’کہیں جان جانے کے خوف سے یہ جھوٹ تو نہیں بول رہا ہے؟‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔‘‘ اس ہاتھ میں تلوارکے جیسا ایک بڑا سا چُھرا تھا۔
’’نہیں جناب میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں۔‘‘ اس نے خود پر قابو پاتے ہوے کہا۔
’’اچھا تو کُران سریپھ کا کوئی سورہ پڑھ کر سناؤ۔‘‘اسی شخص نے کچھ اور قریب آکر شمون کو حکم دیا۔اس کی بیوی یہ سن کر بڑی طرح خائف ہوگئی تھی۔
’’جی ہاں۔ سناتا ہوں۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد اس نے تورات کے ایک پاک سورے کی تلاوت کی، جسے سننے کے بعد پہلے والے شخص نے اپنے باقی ساتھیوں سے کہا کہ ان کا راستہ چھوڑ دو۔
’’ای لوگ واکئی میں مسلمان مالوم ہوتے ہیں۔ جانے دوبھائی۔ یہ لوگ بھی اپنے بھائی ہیں۔۔۔جائیے بھائی، سلاں والے کم۔‘‘اور شمون نے اپنی کار آگے بڑھا دی۔ جب راحیل کو یقین ہو گیا کہ وہ لوگ فسادیوں کی زد سے کافی دور نکل آے ہیں تو اس نے آہستہ سے کہا۔
’’شمون، آج رب نے ہم پر بڑا کرم کیا۔ شاید ہماری کوئی نیکی کام آئی۔ مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ انھوں نے تم سے کہا تھا قرآن شریف کا کوئی سورہ پڑھ کر سناؤ تو تم نے انھیں پاک تورات کا سورہ سنایا اور ان لوگوں نے اس پر دھیان تک نہیں دیا۔ لگتا ہے جیسے ۔۔۔‘‘اس کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ جیسے اس کا حلق اتنا خشک ہو چکا ہے کہ اس سے آواز بھی نہیں نکل رہی ہے۔
’’تمھارا خیال ایکدم درست ہے راحیل۔ میرا دعوہ ہے کہ ان میں سے ایک بھی شخص قرآن شریف کے کسی سورہ اور اس کی عظمت سے قطعی نابلد ہے ۔ قرآن شریف اور اس کی عظمتوں سے واقفیت رکھنے والے نہ تو مذہبی اعتبار سے درندہ صفت ہو سکتے ہیں نہ ہی اتنے گھٹیا اور نیچ۔ حقیقتاً فسادیوں کا کوئی مذہب ہی نہیں ہوتا۔‘‘ اور اس نے کار کی رفتار بڑھا دی۔