ایک تمنا لاکھوں لاشیں
ایک تمنا لاکھوں لاشیں
خواہش پوری باقی باتیں
تیرا چہرہ دیکھنا چاہیں
تاریکی ہیں اندھی آنکھیں
اپنی منزل اجڑی قبریں
اپنی دولت سوکھی گھاسیں
چھایا سہمی کانپ رہی ہے
اس کا آنگن اس کی شاخیں
وقت کا پہیا اتنا دھیما
کب تک انگاروں پر راتیں
کیا بولیں قسمت کے مارے
چھاگل خالی رستی آنکھیں
تیرے جاتے ہی یحیٰؔ سے
دامن کش برکھا کی راتیں