چشم پر آب گھٹا سی اس کی
چشم پر آب گھٹا سی اس کی
دیکھیے ریگ شناسی اس کی
آج چہرے کو نظر لگنے لگی
یاد آئی تھی ذرا سی اس کی
یاد کا دریا چڑھا جاتا ہے
پھر نگاہیں ہوئیں پیاسی اس کی
گرد آلودہ نہیں بال کوئی
سر پہ رہتی ہے ردا سی اس کی
چاک جو آخر شب ہو گئی ہے
اشکوں سے اب وہ قبا سی اس کی
آپ حیران ہے دنیا اس پر
دیو جس شخص کا داسی اس کی