ایک نظم
کہیں بھی چھڑک دو یہ روٹی کے بیج
غلاموں کی فصلیں اگاتے رہو
یہ وہ فصل ہے جس کو پانی ہوا بھی نہیں چاہیے
اک فقط بھوک کی تیز بارش کا چھڑکاؤ درکار ہے
عزت نفس کی کھاد کو جس قدر اپنے پیروں سے
مسلو گے کچلو گے
اتنی ہی اچھی ملے گی خبر
اور تو اور ان غلاموں کی نسلیں کتابوں کو اپنی
درانتی بنا کر
وہ کاٹیں گی جو ان کے پرکھوں نے بویا نہیں تھا
منافع کماؤ
تجوری بھرو
اور غلاموں کی فصلیں اگاتے رہو