ایک نظم

رات ابابیلوں کے پروں سے نکل رہی ہے
تم مجھ سے قریب ہو
اور میرا سفر سمندر میں
اس کشتی کی طرح ہے
جس کے چپوؤں کی آوازیں
اس کا پیچھا کر رہی ہیں
اب چاہت تمہارے بازوؤں سے نکل کر
درندوں کی آوازیں بن رہی ہے
اپنے بازو کھول دو!