ایک نظم
ابھی غیر دلچسپ ہو جائیں گے ہم
ابھی تم کہو گے
کہ بیکار ہے گفتگو کا بہانہ
ابھی میں کہوں گا
کہ بیکار ہے کاروبار زمانہ
ابھی تم زباں پر
سلگتی ہوئی ریت کا ذائقہ چند لمحوں میں محسوس کرنے لگو گے
ابھی میں زباں پر
کوئی خوب صورت فرشتہ صفت نام تنہائیوں میں نہیں لا سکوں گا
ابھی ذہن بیمار ہو جائیں گے سب
فلک تک پہنچتے ہوئے ہاتھ بیکار ہو جائیں گے سب
بھلے یا برے ہم ابھی ہیں سلامت
ابھی ٹوٹنے کو ہے لیکن قیامت
اگر مرگ احساس کی آرزو آخری قدر ٹھہری
ابھی ایک بے جان ماضی کے صحرا میں کھو جائیں گے ہم
ابھی غیر دلچسپ ہو جائیں گے ہم