ایک جھونکا یاد کا مجھ کو اڑا کر لے گیا

ایک جھونکا یاد کا مجھ کو اڑا کر لے گیا
رنگ چہرے کے سبھی جیسے چرا کر لے گیا


یہ تصور ہے ترا جیسے کوئی مانجھی صنم
ہاتھ تھاما شہر تیرے یہ بٹھا کر لے گیا


میں کسی ٹوٹے ہوئے سے پھول کی خوشبو جسے
کوئی عاشق اس کی کاپی میں چھپا کر لے گیا


فخر کے آنسو تھے اس دن ماں کی آنکھوں میں مری
جب میں اس کے پاس اس دن کچھ کما کر لے گیا


لوگ رشتوں کو نبھاتے ہیں کچھ ایسے آج کل
ڈال سے پھل جب کبھی چاہا جھکا کر لے گیا