آسماں پر بٹھا دیا مجھ کو
آسماں پر بٹھا دیا مجھ کو
اس سخن نے جھکا دیا مجھ کو
داستاں زندگی کی اتنی ہے
زندگی نے کھپا دیا مجھ کو
چھاؤں میں جب گیا میں سستانے
خواہشوں نے اٹھا دیا مجھ کو
صبر کی چھت بچاتے ہیں کیسے
آندھیوں نے سکھا دیا مجھ کو
میں تھا بے فکر بیٹھ کشتی میں
کشتی نے ہی ڈبو دیا مجھ کو
فون پر تیری اس خموشی نے
آج پھر سے رلا دیا مجھ کو
کس قدر دوریوں کی چادر ہے
کروٹوں نے بتا دیا مجھ کو
خواب سی زندگی تھی غافلؔ کی
شکریہ جو جگا دیا مجھ کو