آج موسم بڑا سہانا ہے

آج موسم بڑا سہانا ہے
یاد آیا کوئی فسانہ ہے


اشک ماضی شراب اور غزلیں
ربط ان سے مرا پرانا ہے


غربتوں کے یہ دور ہیں اچھے
چاند تاروں پہ شامیانہ ہے


یہ تری یاد ہے ترے جیسی
کام ان کا مجھے ستانا ہے


کھول دل کی گرہ ذرا تو بھی
یہ تغافل تو بس بہانہ ہے


دشت کو دشت رہنے دے انساں
بے زباں کا یہ آشیانہ ہے


کارواں ساتھ تھا کبھی میرے
آج غافلؔ ہوا زمانہ ہے