احسان فراموش
ڈوبنے سے جب بچایا میں نے ان کو تیر کے
تو وزیٹنگ کارڈ اپنا دے کے وہ کہنے لگے
شکریہ ممکن نہیں ہے آپ کے احسان کا
پھر بھی مجھ سے اس پتے پر آپ ملئے گا ذرا
دیکھتے ہی کارڈ ان کا کھل گیا دل کا گلاب
چیف اڈیٹر تھے لٹریری رسالے کے جناب
دوسرے دن ان سے ملنے جب میں دفتر میں گیا
ساتھ صوفے پر بٹھایا چائے کا آرڈر دیا
پھر کہا یہ دے کے مجھ کو ایک موٹی سی رقم
گر قبول افتد زہے عز و شرف اے محترم
میں نے واپس کی رقم کہہ کے کہ حضرت شکریہ
اپنی غزلوں کا پلندہ ان کے آگے رکھ دیا
پڑھ کے وہ غزلوں کو میری بولے یہ تحقیر سے
آپ تو شاعر بڑے ہیں شادؔ غالبؔ میرؔ سے
جامعیؔ صاحب ذرا اک اور احساں کیجئے
اب مجھے تالاب ہی میں ڈوب مرنے دیجئے