دور کا سفر

میں نان سوختہ کا ذائقہ
اتارتا ہوں
روز و شب
زبان پر
کہ اس کی ہمدمی میں
دوستی میں
عمر کے نشیب میں
اگر میں ڈھل سکوں
تو فصل آفتاب کا
وہ برگ زرد بن سکوں
جو دائرے کی انتہا پہ صرف
موسموں کے خواب دیکھتا ہوں
صبح و شام سوچتا ہوں
آرزو
فریب کار شاہدہ
کہاں ملی تھی اور کون سے حسین موڑ تک
چلے گی میرے ساتھ میرے ساتھ
جوئے آب جوئے مے
ردائے خاک
دور کے سفر کے لوگ
بد گماں ساعتوں کے شہر
میں چلوں گا
میں دشت و کہسار کی
اداس ہجرتوں کو
ننھی منی لوریاں سناؤں گا
میں جنگلوں کی
سنسناہتوں کے پار جاؤں گا