دنیا کو درس مہر و وفا دے رہے ہیں ہم
دنیا کو درس مہر و وفا دے رہے ہیں ہم
صحرا میں جیسے کوئی صدا دے رہے ہیں ہم
یہ سوچنا فضول ہے دنیا سے کیا ملا
یہ دیکھنا ضرور ہے کیا دے رہے ہیں ہم
لے کر جزائے خلد کی اک آرزوئے خام
خود کو نہ جانے کب سے سزا دے رہے ہیں ہم
اے رہزن متاع دل و جاں خدا گواہ
تجھ کو بصد خلوص دعا دے رہے ہیں ہم
مانا کہ اڑ چکا ہے گریباں کا تار تار
شاخوں کو تو گلوں کی قبا دے رہے ہیں ہم